مذہبی مکاتب فکر کا سب سے بڑا خوف یہ ہوتا ہے کہ کوئی ان کا مکتب فکر چھوڑ نہ جائے۔ آپ کو یقین نہ آئے تو یہ تجربہ کر کے خود دیکھ لیجئے کہ یکم نومبر کو ایک مولوی صاحب کو یہ خبر دیدیجئے کہ ہمارا ایک دوست ملحد ہوگیا۔ اس خبر پر ان کا ردعمل اور اس ردعمل کی ٹائمنگ نوٹ کر لیجئے۔ ردعمل بھی کیجول ہوگا اور دورانیہ بھی کم۔ اب تیس دن بعد یکم دسمبر کو آپ انہی کو یہ خبر دیجئے کہ آپ کا ایک دوست مسلک چھوڑ گیا ہے۔ آپ اس پر بھی ان کا ردعمل اور اس کا دورانیہ نوٹ کر لیجئے۔
ہم سب دین کے حوالے سے اپنے مسلک کا نقطہ نظر اسی لئے پیش کرتے ہیں تاکہ دوسروں تک اس کی دعوت پہنچ جائے اور وہ اسے اختیار کرلیں لیکن ہم دوسرے مکتب فکر کی تذلیل کیوں کرتے ہیں؟ اس لئے کرتے ہیں تاکہ اپنے لوگوں کو ان سے بدظن کرکے دور رکھ سکیں۔ ساتھ ہی ہم فتوے کا بھی اہتمام کر دیتے ہیں تاکہ یہ بندوبست مزید پختہ ہوسکے۔ اس معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بعض لوگ تو دیگر مسالک کی باقاعدہ تکفیر ہی کردیتے ہیں لیکن جو تکفیر نہیں بھی کرتے وہ ماحول ایسا ضرور بنا کر رکھتے ہیں کہ گویا دوسرے مسلک کو اختیار کرنا کفر کے آس پاس کی ہی چیز ہے۔
ان خوفزدہ عناصر میں سے جو سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں ان کی ترجیح ہی یہ بن جاتی ہے کہ دین کی دعوت ترک کرکے مخالف مسلک کی تذلیل کو ہی اپنا اصل مشن بنا لیتے ہیں اور ایسے لوگوں کے بڑے مزے مزے کے القابات بھی ہوتے ہیں، مثلا ڈاکٹر ذکر نائیک، طارق جمیل اور ثاقب رضا مصطفائی صاحب داعی ہیں۔ ان کے کوئی ہیوی قسم کے ٹائٹل نہیں۔ ان کا ذکر آپ جب بھی سنیں گے فقط اسی نام سے سنیں گے جو ماں باپ نے رکھا ہے لیکن اگر کوئی مولوی صاحب ایسے ہیں جو کسی مکتب فکر کی توہین و تذلیل کا ایجنڈا رکھتے ہیں تو بس پھر آپ ان کے ٹائٹل دیکھتے جائیے۔
اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ یہی کہ دین کے مقابلے میں مسلک کی خدمت کو زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ جب آپ اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر مسلک کی خدمت شروع کر دیتے ہیں تو آپ کو بھاری بھرکم ٹائٹل بھی عطاء ہوجاتے ہیں۔
اب ہم آپ سے وہ سوال پوچھتے ہیں، جو سماعت سے ٹکراتے ہی شاید آپ کی روح دہلا دے مگر آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ آپ ہمیں جواب بھی مت دیجئے۔ ہمیں جواب نہیں چاہئے۔ ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنی تنہائی میں اس سوال پر غور کیجئے اور بار بار کیجئے۔ اگر یہ غور آپ نے اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کی روشنی میں کیا تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر رہ نہ پائیں گے کہ آپ لغو خوف کا شکار ہیں لیکن اگر آپ نے اپنے مسلک کے اکابر کی تعلیم کی روشنی میں اس پر غور کیا تو آپ ساری زندگی خوفزدہ رہیں گے۔ سوال یہ ہے:
“اگر کوئی شخص ہمارا مسلک چھوڑ جائے تو اس سے اس شخص کو یا ہمارے مسلک کو کیا نقصان ہوتا ہے؟”
کیا وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے؟ وہ جہنمی ہوجاتا ہے؟ اللہ اور اس کے فرشتے اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں؟ اور سب سے اہم ضمنی سوال یہ کہ کیا آپ کے مسلک پر رہتے ہوئے وہ پکا جنتی تھا؟ کیا اللہ کی آیات اور اللہ کے رسول ﷺ کی احادیث میں ایسی کوئی بات موجود ہے جو یہ بتاتی ہو کہ اسلام میں مکاتب فکر کا بھی ایک سسٹم ہے اور آپ کو ان میں سے فلاں والے سے جڑنا ہے اور فلاں والے سے بچنا ہے؟
لے دے کر ایک 72 فرقوں والی روایت ہے اور اس میں بھی یہ واضح نہیں کہ جو ان میں سے حق پر ہوگا ان کے عقائد اور نشانیاں کیا ہوں گی۔ حالانکہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ دونوں کا مزاج تو یہ ہے کہ وہ حق اور باطل کی نشانیاں کھول کھول کر بیان فرما چکے, مثلا اللہ جب مختصر ترین انداز بھی بات کرتے ہیں تو یوں فرماتے ہیں:
“وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے وہ جنتی ہیں۔”
آپ نے نوٹ کیا اللہ نے اہل جنت کی نشانی کیا بتائی؟ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کے ایسے ہی بے شمار ارشادات ہیں جن میں آپ ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ مومن کی نشانیاں کیا ہیں؟ اور ایسے ارشادات گرامی بھی ہیں جن میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کون “ہم میں سے نہیں” دین کی نسبت سے مکاتب فکر اگر اللہ کی اسکیم ہوتے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ ان کے حوالے سے واضح ہدایات دیے بغیر چھوڑتے؟
اب آجایئے اصل نکتے کی جانب۔ آپ نے اب تک جو سطور پڑھیں ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مکاتب فکر لغو چیز ہیں۔ یہ نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ یہ تصور کرنا لغو ہوگا کہ مکاتب فکر کی موجودگی لغو ہے مگر یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مکاتب فکر وجود میں کیسے آتے ہیں؟ ہم آپ کو سادہ ترین الفاظ میں سمجھا دیتے ہیں۔
گھر میں سوال کھڑا ہوا کہ رات کے کھانے میں کیا بنایا جائے؟ دو بچوں نے جواب دیا کہ کڑاہی بنائی جائے، دو نے کہا کہ سبزی بنائی جائے۔ دونوں نے اپنی اپنی پسند کے حق میں دلائل بھی دیدیے۔ یہ ہوگئیں دو آراء۔ دو آراء بنتے ہی دو مکاتب فکر وجود میں آگئے، بیشک کچھ منٹ کے لئے ہی سہی۔ اسی طرح سوال کھڑا ہوا کہ اس ملک کے اقتدار کے لئے کونسی جماعت بہتر ہے۔ 72 آراء آگئیں۔ یہ 72 سیاسی مکاتب فکر ہوگئے۔ 72 یوں کہ جن جماعتوں کا کبھی ایک بھی امیدوار نہیں جیتا وہ بھی یہ رائے رکھتی ہیں کہ ملک کے لئے سب سے بہتر وہی ہیں۔
ہم نے انتہائی کم تعلیم یافتہ افراد کو پیش نظر رکھ کر آسان تفہیم کے لئے جماعتوں کو ہی مکاتب فکر کہہ دیا۔ ورنہ سیاسی مکاتب فکر اسلامی نظام، لبرلزم، سوشلزم وغیرہ وغیرہ کی صورت موجود ہیں۔ مذہبی مکاتب فکر کی موجودگی پر اعتراض کرنے والے ارسطو بھی خود کسی نہ کسی سیاسی مکتب فکر کا حصہ ضرور ہوتے ہیں۔ وہاں وہ آپ کو یہ کہتے بالکل نہیں ملتے کہ بھئی یہ اتنے “ازم” کیوں بنا رکھے ہیں؟ انہیں ختم کرو۔ ناں! ناں! وہاں سب نے اپنے اپنے (سیاسی) فرقے سنبھال رکھے ہیں اور ان کے لئے لڑتے مرتے بھی ہیں۔
مذہبی مکاتب فکر بھی یوں وجود میں آئے کہ دین پر عمل کی نسبت سے کچھ نئے سوالات کھڑے ہوئے تو اہل علم کے ایک گروپ نے اپنی سوچ اور فہم کے مطابق اس کا جواب پیش کردیا۔ اہل علم کے ہی ایک دوسرے گروپ نے اسی سوال کا کچھ اور جواب پیش کیا اور ظاہر ہے اپنے دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ اب یہ دو آراء ہوگئیں۔ کچھ لوگ کھڑے تھے جو خود فقیہ نہ تھے، عام شہری تھے۔ وہ بس اس انتظار میں تھے کہ ہمارے سوال کا جواب دیا جائے تاکہ ہم اس کے مطابق عمل کریں۔ انہوں نے جب یہ دو آراء سنیں تو ان کے بھی دو گروہ بن گئے۔ بعض نے کہا کہ بھئی ہمیں تو اہل علم کے پہلے گروپ کی بات ٹھیک لگ رہی ہے۔ بعض نے کہا کہ ہمیں دوسرے گروپ کی رائے میں زیادہ وزن نظر آرہا ہے۔ یوں گویا دو مکاتب فکر وجود میں آگئے۔
اگر آپ باریک بینی سے غور فرمائیں تو ہر فقیہ کا ایک “علمی مزاج” ہوتا ہے۔ وہ مسائل پر اسی مزاج کے تحت غور کرتا ہے۔ اسی لئے بعض فقہاء کی آراء میں سختی کا عنصر نمایاں ملتا ہے تو بعض کے ہاں نرمی کا، چنانچہ لوگوں میں سے بھی جن کا مزاج نرمی کا ہوتا ہے وہ نرم والے امام صاحب کی رائے پر چلتے ہیں اور جو سختی کا مزاج رکھتے ہیں وہ سخت علمی مزاج والے امام کی اتباع کرتے ہیں۔
سو آراء کا اختلاف ایک عین فطری چیز ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک جگہ صرف دو انسان بھی موجود ہوں اور وہ ہر بات میں متفق ہوں۔مذہبی مکاتب فکر کے معاملے میں جو غلطی ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں مکاتب فکر اس خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ کوئی ہمارا مکتب فکر چھوڑ نہ دے، چنانچہ اس امکان کو ختم کرنے کے لئے انہوں رسول اللہ ﷺ کی امت کو ہی انتشار سے دو چار کردیا ہے۔ آپ حنفی سے سوال پوچھئے کہ اگر کوئی شافعی، مالکی، یا حنبلی مسلک اختیار کر گیا تو؟ وہ آپ کو یہی جواب دے گا: “کوئی حرج نہیں، چاروں حق ہیں۔”
لیکن آپ اس سے یہی سوال کسی لوکل مسلک یعنی دیوبندیت، بریلویت وغیرہ کی نسبت سے پوچھیے اور بس پھر آپ اس کا رنگ اڑتا دیکھئے۔ کیا آپ جانتے ہیں حنفی مسلک کا پیروکار شافعی، مالکی، اور حنبلی مسلک کو حق کہتے ہوئے بڑے سکون سے یہ موقف کیوں اختیار کر لیتا ہے کہ اگر کوئی ان مسالک کو اختیار کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں؟ کیونکہ اسے پتہ ہے یہ تینوں مسالک پاکستان میں وجود نہیں رکھتے لھذا کسی کے کلٹی مارنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ جب خطرہ نہیں ہے تو یہ سچ سے کام لے کر انہیں حق مان رہا ہے۔
ہم شرطیہ کہتے ہیں آپ آج پاکستان میں تین مساجد بنا دیجئے۔ ایک مالکی، دوسری شافعی اور تیسری حنبلی مسلک کی۔ اور وہاں سے ایسا لٹریچر تقسیم کروانا شروع کردیجئے جو ان مسالک کو اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہو۔ پھر آپ دیکھئے گا کہ ملک کے کسی کونے سے کیسے کوئی “وکیل احناف” کھڑا ہوکر ان کی طبیعت صاف کرتا ہے۔ ہم کو تو چشم تصور سے یہ منظر تک نظر آرہا ہے کہ جب اس وکیل احناف سے پوچھا جائے گا کہ بھئی آپ تو کہتے تھے یہ شافعی، مالکی، اور حنبلی بھی حق ہیں۔ ان کا مسلک اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں تو وکیل احناف کا جواب ہوگا: “وہ پرانے زمانے والے شافعی، مالکی، اور حنبلی حق تھے۔ آپ ذرا تشریف رکھئے میں آپ پر دلائل قطعیہ سے واضح کر دیتا ہوں کہ یہ آج کل والے شافعی، مالکی، اور حنبلی پکے دوزخی ہیں۔”
آخری بات بس یہ لے لیجئے کہ نفرت کا یہ پرچار عین کمرشل ازم ہے۔ یہ مسالک اب مسالک نہیں “برینڈ” بن چکے ہیں۔ مگر ان کا چلن گھٹیا ہے۔ یہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ مرسڈیز والے اپنی مارکیٹنگ یوں نہیں کرتے کہ بی ایم ڈبلیو کے خلاف نفرت کا پرچار شروع کردیا۔ نہ ہی بی ایم ڈبلیو والے مرسڈیز کے خلاف پروپیگنڈے کرتے ہیں۔ یہ سب اپنے اپنے برانڈ کی خوبیاں بیان کرتے ہیں۔ ارے بھئی آپ بھی اپنے برینڈ کی خوبیاں بیان کیجئے۔ دوسرے برینڈ کو گالیاں کاہے کو دیتے ہیں؟