پورے ملک میں ملکۂ ترنم نور جہاں کے مداح آج ان کی 93ویں سالگرہ منا رہے ہیں اور ان کے گائے گئے خوبصورت گیتوں کو یاد کیا جا رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق انہوں نے اپنی گائیکی کے کیرئیر کے دوران 10 ہزار کے قریب گیت گائے۔
ملکۂ ترنم نور جہاں 21 ستمبر 1928ء کو ایک موسیقار گھرانے میں پیدا ہوئیں جس کے بعد ان کا نام اللہ وسائی رکھا گیا۔ ان کو ابتدائی طور پر بابا غلام محمد نے موسیقی کی تعلیم دی اور کلاسیکی موسیقی کے اہم اسباق سے آشنا کیا۔
انہوں نے صرف گلوکاری میں ہی نام نہیں کمایا بلکہ ابتدا ہی سے ان کا نام برصغیر کی اہم فلم اداکاراؤں میں شمار ہوتا ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں نے فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ اپنی آواز کا جادو جگانا بھی جاری رکھا۔
نور جہاں نے سید شوکت حسین رضوی سے شادی کی جن سے ان کی ایک بیٹی ظلِ ہما اور دو بیٹے اکبر رضوی اور اصغر رضوی پیدا ہوئی۔ بعد ازاں شوہر سے علیحدگی ہوئی تو بچوں کو ملکۂ ترنم نے اپنے پاس رکھ لیا۔ اپنی ماں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے گلوکاری میں نام کمانے والی ظلِ ہما سمیت ان کی تمام اولادوں کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔
فیض احمد فیض کی نظم مجھ سے پہلی سی محبت آج بھی روزِ اول کی طرح سدابہار اور مشہور ہے جسے نور جہاں کی آواز نے ایک نئی زندگی عطا کی۔ نور جہاں نے فیض کے علاوہ قتیل شفائی اور فراز سمیت متعدد اردو شعراء کی غزلیں اور دیگر گیت گا کر ایک الگ نام اور شہرت حاصل کی۔
ملکہ ترنم نور جہاں کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغہ پرائڈ آف پرفارمنس اور نشانِ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ پاک بھارت جنگ 1965ء کے دوران ملکہ ترنم کے گائے ہوئے قومی نغمے ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔
طویل علالت کے بعد 23 دسمبر 2000ء کو ملکہ ترنم نور جہاں کا 73 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا جس کے بعد کراچی کے ڈی ایچ اے قبرستان میں نور جہاں کو سپردِ خاک کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: مایہ ناز پاکستانی گلوکار و موسیقار امانت علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 45 برس ہو گئے