فلم سازی اور شوبز انڈسٹری پر دباؤ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حکومت نےحساس موضوع کی تصویر کشی کرتی آئندہ آنے والی فلم “زندگی تماشا” کی ریلیز روک دی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل بھی متعدد فلموں اور ڈراموں پر پابندی عائد کی جاچکی ہےحالانکہ فلم سازوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایسی فلم نہ بنائی جائے جس پر سنسر بورڈ پابندی لگائے۔

فلم “زندگی تماشا” کو متعدد بار سنسر بورڈ سے کلیئر قرار دیا گیا تھا اور فلم رواں ہفتے سینما کی زینت بننے کے لیے تیار تھی تاہم حکومت کی جانب سے فلم کی ریلیز پر پابندی عائد کردی گئی اور فلم کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزارت اطلاعات ایک بار پھر اس فلم کا جائزہ لینے کے لئے ایک اجلاس منعقد کرے گی جس میں دائیں بازو کی جماعت تحریک لبیک کا نمائندہ بھی شرکت کرے گا۔

فلم کی ریلیز میں تاخیر کی وجہ بے بنیاد ہے اور یہ آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے لئے ایک افسوسناک دن ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کس طرح ان شدت پسند گروہوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے میں ناکام ہے جو معاشرے میں انتشار پیدا کرتے ہیں اور عوام کو فن اور تفریح کے مواقع فراہم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں ، اس سے قبل اسلام آباد میں بھی مذہبی جنونیوں نے حالات خراب کیے تھے اور اور اب یہ ہمارے معاشرے کو متاثر کررہے ہیں۔

اس فلم نےمخصوص مذہبی جماعت کو ناراض کردیا ہے جس نےفلم کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیا ہے، فلم کے ہدایتکار سرمد کھوسٹ کو بھی ھمکیاں اور وہ فلم کی ریلیز روکنے پر غور کررہے ہیں۔ اب صرف مذہبی جماعت کے ممبروں اور سرکاری اہلکاروں کی منظوری ہم فلم کی ریلیز ممکن ہوسکے گی۔

فلم کے ڈائریٹرسرمد کھوسٹ نے وزیراعظم اعظم عمران خان کو بھی خط لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ فلم بنانے کا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا یا بدنام کرنا نہیں تھا، انہوں نے شکایت کی تھی کہ فلم سے دستبرداری کے لئے ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ عقلی اور فنی سوچ رکھنے والوں کو چند لوگوں کی وجہ سے پریشان نہیں کیاجانا چاہیے اور یہی صحیح وقت ہے کہ ایسے لوگوں کا مقابلہ کیا جائے۔

اس فلم پر پابندی سے ایک خطرناک نظیر قائم ہوگی جہاں مذہبی جماعتیں اور دیگر افراد فنون لطیفہ اور تفریح کے شعبے میں مداخلت کرتے نظر آئیں گے۔ سرمد کھوسٹ کے مطابق یہ کہانی اچھے مسلمانوں کے بارے میں ہے جس میں بغیر کسی فرقے یا دھڑے کے ذکر کیا گیا ہے، لیکن داڑھی والے آدمی کے نقائص کے ساتھ پیش کی جانے والی تصویر میں اخلاقی برگیڈ کےاعصاب پر اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے فلم کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

فلم پر پابندی فلمساز کو مزید محتاط کردے گی جہاں ان کی فلم کو نہ صرف سنسربورڈ کی منظوری درکار ہوگی بلکہ سیاسی یا مذہبی جماعتوں اور دیگر پریشر گروپوںکو پسندیدگی کی سند بھی ملنی چاہیے۔ ملک میں فن اور اظہار رائے کی آزادی پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔ حکومت کو بیرونی دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے فنون لطیفہ کو فروغ دینے کے لئے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Posts