ایکسل لوڈ رجیم کی تباہ کاریاں

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایکسل لوڈ رجیم کے نفاذ نے ایک کاروباری شخص کے ساتھ ایک عام آدمی کو بھی شدید متاثر کیا ہواہے میں اس تحریر میں آپکی توجہ ایکسل لوڈ رجیم کے نفاذ سے ہونے والی پریشانیوں کی جانب دلانا چاہتاہوں۔

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ایکسل لوڈ رجیم ابھی بھی نافذ ہے جو ملک میں یومیہ اربوں روپے سے زیادہ کے نقصان کا باعث بن رہا ہے، اگر یہ نظام اسی طرح جاری رہا تو سالانہ کھربوں میں نقصان ہوگا جس کیوجہ سے معیشت اور جی ڈی پی پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے سابق سینیٹر عباس آفریدی ایکسل لوڈ کے نفاذ کے لیئے کوششیں کرر ہے ہیں کیونکہ کچھ ٹرک مالکان اپنے فائدے کے لیئے ایکسل لوڈ کے نفاذ کے حق میں ہیں اور عباس آفریدی کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اچانک ایکسل لوڈ کے نفاذ کو ختم کرنے کی ہدایات پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔

 این ایچ اے سیفٹی آرڈینینس 2000صدر پاکستان نے قومی شاہراہوں پر محفوظ ڈرائیونگ کے لیئے بنایا تھا جو اب کسی نہ کسی طرح ایکٹ بن چکا ہے، اس پر زمینی حقائق اور بین الاقومی قوانین کے مطابق نظر ثانی ، تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت ہے۔

 مثال کے طور پر نیشنل ہائی وے سیفٹی آرڈینینس 2000کی شق 6کے ایس آر او 308(1)/2018پر غور کرنا ضروری ہے، جس کے مطابق سامان کی نقل و حمل کی گاڑیوں کے غیر مجازمن گھڑت سازی اور تغیر پر پابندی، کوئی بھی شخص سامان کی نقل و حمل کی گاڑیوں میں ردو بدل نہیں کرے گا۔

یہ ایک ریکارڈ کی بات ہے کہ پاکستان میں تقریبا تین لاکھ ٹرک اور ٹرالر برانڈڈ کمپنیوںجیسے کے نسان اور بیڈ فورڈ کے ہیںجو ابھی تک اپنی اصلی حالت میں ہیں اور تقریبا نوے فیصد سے زیادہ ٹرک اور ٹرالر غیر معیاری ورکشاپ میں بنائے جانے والے اور غیر معیاری ہیں اس طرح تقریبا 250000ٹرک اور ٹرالر متروک کر دئے جائیں جس سے تقریبا ایک ملین لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔

سامان کی نقل و حمل کے لیئے استعمال ہونے والے ٹرکوں کو جد ید بنانے کے لیے ٹرک مالکان اور ڈرائیوروں کو معاشی سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے لیئے بینک سیکٹر کو نہایت ہی کم مارک اپ پر ٹرانسپورٹروں کو سپورٹ کرنی ہوگی اور ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی، جبکہ ٹرکنگ لوڈ پالیسی 2007میں صفحہ نمبر 9اور10میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ ایکسل لوڈ رجیم کا اچانک نفاذ دیگر اقدامات اور غور وفکر کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔

دیکھنا یہ ہے کیا اس ایکسل لوڈ کے نفاذ سے قبل ٹرکنگ لوڈ پالیسی 2007کو سامنے رکھا گیا ہےیااس پالیسی کو مدنظر رکھا گیا ہے، مگراب وقت آگیا ہے کہ اس قسم کی من مانی پالیسیوں کو روکا جائے جو ملک کے لیئے نقصان دہ اور زہر قاتل بنتی جارہی ہیں اور جن کی وجہ سے ملک میں پائیدار ترقی نہیں ہو سکتی۔

ہمیں اس قسم کے غیر منطقی فیصلوں سے بار بار دشواریوں کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے ہمیں حکمت عملی بنانے ، منصوبہ بندی کرنے اور اپنے پیارے ملک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، ہم سب لوگو ں کا مقصد ٹرانسپورٹ کے ذرائع ریل، روڈ اور آبی نقل و حمل جیسے روڈ کی سہولیات کو بہتر بنا نا اور ترقی دینا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ روڈ ٹرانسپورٹ کے لوگوں کو بھی ایسے ہاتھ ملانا چاہیے کہ کارگو اور پاکستان کی عوام کی نقل و حمل درآمد اور مقامی ضروریات کو سہولیات فراہم کی جائیں ، مجموعی اخراجات کونیچے لایاجائے، اس سلسلے میں اس شعبے کو باقاعدہ ٹیکس نیٹ میں لاناچاہیے۔

ایک توجہ درآمد شدہ کھاد کی نقل و حرکت اور تقسیم کے لیئے پیدا ہونے والی پریشانیوں کی طرف بھی ہونی چاہیے، ، تقریبا 67فیصد ڈی اے پی فرٹیلائزر کھاد درآمد کی جاتی ہے جو کہ مقامی کسانوں کی پیداواری صلاحیت کی طلب کو پورا کرنے کے لیئے زیاد ہ ہے، اور سو فیصد پوٹاشیم اور امونیم سلفیٹ کھاد بھی درآمد کی جاتی ہے۔

مزید یہ کہ کسانوں کی طلب کو پورا کرنے کے لیئے سالانہ ڈی اے پی کھاد کی درآمدی تعداد 1.5 ملین ٹن سے 1.8ملین ٹن کے درمیان ہوتی ہے، ایس او پی، ایم او پی اور اے ایس کی کل درآمد سال 2018میں تقریبا 0.150ملین ٹن تھی، ڈی اے پی ، ایس او پی ، ایم او پی اور اے ایس کھادوں کی مجموعی سالانہ درآمدیتعداد 1.65ملین ٹن سے 1.95ملین ٹن سالانہ ہے۔

کھاد کا بڑا ذخیرہ بندرگاہ سے لے کر جانیوالے کسانوں کے تمام مطالباتی مراکز کے پی کے ، پنجاب اور صوبہ سندھ میں جاتا ہے،اگست کے مہینے میں درآمد شدہ ڈی اے پی ، ایس اوپی، ایم او پی اور اے ایس کھادوں میں سے تقریبا 60فیصد بندرگاہ سے اوپر والے مقامات میں منتقل ہو جاتا ہے۔

اس کی بڑی وجہ گندم ، آلو اورگنے کی فصلوں کے موسمی تقاضے ہیں ، اگست سے دسمبر کے درمیان بندرگاہ سے اوپری مقامات کسان ڈیمانڈ سنٹرز تک درآمد شدہ کھادوں کی کھیپ میں تاخیران مہینوں میں بوئی جائی والی گندم ،آلو اور گنے کی فصل کے لیئے تباہی کا سبب بن سکتی ہے، پہلے ہی ہم نے کے پی کے اور صوبہ پنجاب میں کھاد کی دستیابی پر ایکسل لو ڈ کی وجہ سے ٹرکوں کیقلت کا اثر دیکھا ہے، برآمد شدہ امپورٹڈ کھا دکی قیمتوں میں ٹرکوں کے کرائے میں اضافے کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے، کراچی سے وسطی پنجاب میں درآمدی کھا د کی ترسیل میں فی بیگ تقریبا 100روپے کا اضافہ ہوا ہے اور یہ توقع ہے کہ کرائے میں طلب کے حساب سے اضافہ بڑھتا جائے گا، ایکسل لوڈ رجیم کے اچانک نفاذ کی وجہ سے ٹرکوں کی کمی کے سبب ستمبر سے نومبر کے مہینوں میں ڈی اے پی کھاد کی چوٹیوں کے لیئے پنجاب اور کے پی کے میں کھاد کے درآمدات کے کل 1.95ملین ٹن کی بنیاد پر 2000ٹن ( 100روپے فی بیگ) کے حساب سے پاکستانی کسانوں کو درآمدی کھادوں کی قیمت میں چار بلینکی لاگت آئے گی، اس کے علاوہ کاشتکار گندم کی بوائی کے لیئے درآمد شدہ کھا د جیسے ڈی اے پی کی بروقت فراہمی نہیں کر سکیں گے جس سے پورے ملک میں گندم کی کاشت میں نمایاں کمی آئے گی، اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ایکسل لوڈ کے نفاذ میں تاخیر کرے تا کہ ملک کے کسانوں اور زرعی پیداوار کو نقصان نہ پہنچے، ایک معروف کاروباری شخصیت کے مطابق تقریبا 150ملین ٹن کارگو (جس کی نمائندگی براہ راست متاثرہ اسٹیک ہولڈرز کرتے ہیں ) پر ایک سال میں انڈسٹر ی پر براہ راست اضافی ٹرانسپورٹ لاگت یا نقصان تقریبا 154بلین روپے ہوگا، اور ا س کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سالانہ خسارہ ایک کھرب سے تجاوز کرجائے گا ، جس سے متعدد مسائل جنم لیں گے جیسا کہ برآمدات کا کم ہونا، درآمداتکامہنگا ہونا، اور سب سے بڑ ھ کر نقل و حمل کی شدید کمی دیکھنے کو ملے گی ، جبکہ یہ عمل عملی طور پر پاکستان کے ہر شہر ی کے لیئے روزانہ کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بھی بنے گا، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اچانک سے ایکسل لوڈ کا نفاذہو گیا تواوپر بتائے گئے تمام مسائل جنم لے سکتے ہیں ، اس لیئے بہت ضروری ہے کہ ایکسل لوڈ کے نفاذ کو کچھ سالوں کے لیئے روک دیا جائے یعنی موخر کردیا جائے اور نقل وحمل کے لئے بذریعہ روڈ، بذریعہ ٹرین اور اندرون ملک میں پانی کے راستے سے نقل و حمل کے ذرائع پیدا کیے جائیں تا کہ نقل و حمل کی مجموعی لاگت میں کمی لائی جاسکے جس کا فائدہ ہمار ے ملک کے ساتھ عوام کو بھی پہنچے گا،اس سلسلے میں ایک رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے جس کے مطابق مطابقنیشنل ہائی وے اتھارٹی سڑکوں کی مرمت اور بحالی کے لیے سالانہ 65بلین کے اخراجات کا ذکر کر رہی ہے اور اس پر یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ایکسل لوڈ رجیم کے نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہوجاتے ہیں اور ان کی مرمت میں ہمارے پیسے خرچ ہوتے ہیں جبکہ کاروباری طبقہ کو لگتا ہے کہ ان کے اعدادو شمار میں کچھ غلطیاں ہیں اور انہوں نے حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ تمام بڑی شاہراہوں ، نیشنل ہائی وے اور موٹروے کا غیر جانبدار اور پروفیشنل آفیسر وں سے فارنزک آڈٹ کروایاجائے ،اب اس سلسلے میں کون غلط ہے اور کون سہی ہے اس کا فیصلہ کرنا اب مشکل کام نہی رہاہے ۔اس معاملے میں آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپوٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے وفاقی وزیرپورٹ اینڈشپنگ کو رواں برس لکھے گئے ایک خط کے مطابق کے جس میں لکھا گیا تھا کہ شپنگ کمپنیاں فروٹ اور سبزیوں کے ایکسپوٹرز کو سہولیات فراہم کرنے کی بجائے کنٹینرز کی عدم دستیابی اور دیگر بہانوں سے کرایوں کی مد میں اضافہ کرکے بلیک میل کررہے ہیں ،گزشتہ برس 2018میں آلو پیاز اور کینو کے سیزن میں شپنگ کمپنیوں نے کنٹینرز کے کرایوں میں سات سو امریکن ڈالرز سے بڑھا کر دوہزار امریکن ڈالر فی کنٹینر بڑھادیا۔اور اس سیزن میں یہ یہ تمام اجناس جن کا خراب ہونے کا خدشہ ہوتاہے ایسے وقت میں اچانک کنٹینرز کی مصنوعی قلت اور دیگر حیلے بہانوں سے ایکسپورٹرز کو بلیک میل کیا گیا،جس کے باعث فوری طور پر کام رکنے سے ایکسپورٹ متاثر ہوتا ہے اور اس طرح ملک میں آنے والا زرمبادلہ اور دیگر اشیامتاثر ہوتی ہیں ۔ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ایکسپوٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے دو ماہ قبل یعنی ستمبر 2109وفاقی وزیرپورٹ اینڈ شپنگ کو لیکھے گئے خط میں انہوںنے یہ بھی کہاہے کہ ابھی ہمارے پاس اس سلسلے میں دو ماہ موجود ہیں اس لیے آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آنے والے سیزن میں گزشتہ برس کے معاملات کوسامنے رکھتے ہوئے شپنگ کمپنیوں کی بلیک میلنگ کو روکا جائے تاکہ ایکسپورٹرزبغیر کسی زہنی اور کاروباری دبائو سے آزاد ہوکر اپنا کام کرسکے پاکستانی اجناس و اشیا کو ایکسپورٹ کرسکے اور اس عمل سے نہ صرف کاروباری حضرات کو فائدہ پہنچے گابلکہ اس سے ملک میں بھی خوشحالی آئے گی۔

Related Posts