وزیراعظم کی سرزنش کے بعد سفراء میں بے چینی پائی جارہی ہے، ڈاکٹر جمیل احمد خان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ambassador Jamil Ahmad Khan

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

 کراچی :سابق سفیر، سینئر تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر جمیل احمد خان نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پاکستانی سفراء کے حوالے سے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں لاکھوں پاکستانی افرادی قوت خدمات انجام دی رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں تعیناتی کے دوران وہاں 18لاکھ افراد کام کررہے تھے اور سعودی عرب میں اس وقت 22 لاکھ افراد تھے جو اب 27 لاکھ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سعودیہ اور امارات میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد موجود ہونے کی وجہ سے سفارتخانوں پر کام کا دباؤ قدرے زیادہ ہوتا ہے جس کو سنبھالنا بھی سفیر کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔

ڈاکٹر جمیل احمد خان نے کہا کہ میرے زمانے میں پاسپورٹ اور نادرا کے حوالے سے دباؤ بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے شب 12بجے کے بعد سے پاکستانیوں کی قطاریں لگنا شروع ہوجاتی تھیں، انہوں نے اپنی تعیناتی کے وقت پیش آنیوالے ایک واقعہ کے حوالے سے بتایا کہ جب میں نے امارات میں سفیر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی تو رات کو دفتر سے روانگی کے وقت دیکھا کہ دفتر کے بعد ڈیڑھ سو کے قریب لوگ موجود تھے تو عملے سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں روز سیکڑوں لوگ آتے ہیں جن میں سے نصف لوگوں کو ٹوکن ملتا ہے اور باقی واپس چلے جاتے ہیں۔

ابوظہبی میں اپنی تعیناتی کے دوران پانچ ہفتوں میں چند انتظامی تبدیلیاں لاکر خدمات کو بہتر بنایا اور جو پاسپورٹ 45منٹ میں تیار ہوتا تھا وہ فقط 5منٹ میں تیار ہونے لگا تھا نتیجتاً کام کا دباؤ کم ہوگیا اور لوگوں کی قطاریں ختم ہوگئیں، ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سفراء کی سرزنش درست اقدام ہے لیکن انداز غلط تھا کیونکہ ایسی تنبیہ ہمیشہ بند کمرے میں کی جاتی ہے میڈیا میں نہیں لاجاتی کیونکہ اس سے پوری دنیا میں پاکستانی سفارتکاروں کے حوالے سے منفی پیغام جائیگا اور ان کہنا ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک میں موجود پاکستانی اعلیٰ درجہ کے کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں مسائل کم ہوتے ہیں لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانی زیادہ تر مزدوری کے پیشے سے وابستہ ہیں اور خواندگی کی کمی کی وجہ سے ان ممالک میں رابطے کا فقدان پایاجاتا ہے اور مزدوروں کو بنیادی معلومات اور سفارتی عملے کے حساسیت کم ہونے کی وجہ سے اکثر مسائل کا سامنا رہتا ہے اور مزدور طبقے کے افراد کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

ڈاکٹر جمیل احمد خان نے کہا کہ سمندرپار پاکستانیوںکے مسائل کا نوٹس اورسفراء کی سرزنش وزیراعظم کا استحقاق ہے لیکن میڈیا میں اس قسم کی تنقید سے سفارتکاروںکی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔اکثر بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں میں عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے قائم شعبہ جات میں افسران کا رویہ نامناسب ہوتا ہے اور افسران ان شعبہ جات میں جانا پسند نہیں کرتے،ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان میں بھی سرکاری افسران کا عوام کے ساتھ رویہ ایسا ہی ہوتا ہے جس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی تنقید کے بعد سفراء میں ایک بے چینی پائی جارہی ہے اور بھارتی سفارتکاروں کی قابلیت کی مثال دینے کی وجہ سے ہمارے سفارتکار ناخوش ہیں اور وزیراعظم کی سرزنش کے بعد ان کو دنیا بھر میں کام کے دوران سبکی کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے یہ بات درست ہے کہ ناصرف سفارتخانوں بلکہ پاکستان میں بھی سرکاری دفاتر میں افسرشاہی کا راج پایا جاتا ہے مگر وطن سے دور ہم وطنوں کو معقول عزت نہ دی جائے تومملکت پر ان کا بھروسہ متزلزل ہونا شروع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔

سفراء تارکین وطن کے مسائل جب پاکستان کے متعلقہ محکموں میں بھیجتے ہیں تو وہاں سے جواب شاذونادر ہی واپس آتا ہے اور تارکین وطن کے مسائل برقرار رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک میں اکثر بے جا طور پرقید و بند کی صعوبیتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں ،ایسی صورت میں سفارتخانہ ان کی مدد فراہم کرنے میں ہمیشہ اکثر سست پایا جاتا ہے۔

Related Posts