سائنسدانوں نے ساڑھے 12کروڑ سال پرانے ڈائنوسار کی 2اقسام دریافت کر لیں

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سائنسدانوں نے ساڑھے 12کروڑ سال پرانے ڈائنوسار کی 2اقسام دریافت کر لیں
سائنسدانوں نے ساڑھے 12کروڑ سال پرانے ڈائنوسار کی 2اقسام دریافت کر لیں

ماہرین نے ڈائنوسار نامی غیر معمولی طور پر طویل القامت، گوشت خور اور خوفناک نظر آنے والے جانوروں کی 2 نئی انواع دریافت کی ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمارے اندازے کے مطابق یہ 12 کروڑ 50 لاکھ سال قبل انگلینڈ میں وجود رکھتے تھے جو معدوم ہو گئے۔

تفصیلات کے مطابق ماہرین نے دونوں اقسام میں سے ایک کو دوزخ کا بگلا اور دوسرے کو رپرووینیٹر ملنیریا یعنی ملنر کے دریائی کناروں کا شکاری کہا گیا جبکہ ملنر سے مراد معروف سائنسدان انجیلا ملنر ہیں جن کی تحقیق سے اس جانور کا پتہ چلا۔

پاکستان کی آزادی کے سال 1947 میں پیدا ہونے والی انجیلا چرل ملنر کا انتقال رواں برس 13 اگست کے روز ہوا جو ایلن چرگ کے ہمراہ 1986 سے ہی ڈائنو سار کی تحقیق پر کام کر رہی تھیں۔ دونوں کی جوڑی کو ڈائنوسار باریونکس کہا جاتا تھا۔

دونوں ڈائنوسارز کی باقیات انگلینڈ میں آئل آف وائٹ کے ساحل سے دریافت ہوئیں جو سپنو سورائڈز یا خاردار بدن والے جانور سمجھے جاتے ہیں۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ دونوں 9 میٹر (29 فٹ) طویل تھے جن کی کھوپڑی کا سائز 1میٹر (3فٹ) رہا ہوگا۔

نئے ڈائنوسارز کی دریافت میں کئی سال لگے کیونکہ ان کی ہڈیوں کو زمین کھود کر نکالنا اور یکجا کرنا تکنیکی اعتبار سے دقت طلب اور صبر آزما کام ثابت ہوا۔ ماہرین کو ہڈیوں سے پتہ چلا کہ برطانیہ میں سپنوسورائڈزکی اقسام ماضی کے اندازوں سے کہیں زیادہ تھیں۔

سائنسدانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ 50 ہڈیوں پر مشتمل ڈائنوسارز کی باقیات سینڈاؤن میں ڈائنو سار آئل میوزیم میں نمائش کیلئے پیش ہو جس کا مقصد سائنسی، ارضیاتی و حیاتیاتی تحقیق میں ڈائنوسارز کی اہمیت پر روشنی ڈالنا اور مختلف سوالات کے جوابات تلاش کرنا ہے۔ 

یہ بھی پڑھیں: خلائی مشن نے عطارد کی قریب ترین تصاویر حاصل کر لیں

Related Posts