بابو، اور بابو پنا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 ہمارے ہاں یہ تصور تقریباً راسخ ہوچکا کہ ہمیں جو بھی خیر و برکت ملنی ہے، اپنی سرحدی حدود کے باہر سے ہی ملنی ہے۔ اس باب میں ہم اپنی زمین ہی نہیں دل و دماغ کو بھی بنجر تسلیم کرچکے۔ یعنی معاملہ استعمال کی اشیاء تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ فکری میدانوں تک اپنا پھیلاؤ رکھتا ہے۔

اس اتفاق پر شکرانے کے نفل بنتے ہیں کہ ہمارے ہاں مغرب سے آم نہیں آتے۔ ورنہ چشم حیرت نے یہ تماشا بھی دیکھ لینا تھا کہ بابو لوگ دنیا بھر میں مانگ رکھنے والے اپنے چونسے کی جگہ صرف اس لئے پھیکی گٹھلیاں چوستے نظر آتے کہ “امپورٹڈ” ہیں۔

اس بے عقل کو ان عظیم اصحاب عقل کی زیارت بھی نصیب ہوئی ہے جن کا خیال ہے کہ درخت سے اترا شہد، بھینس یا گائے سے سیدھا گھر پہنچنے والا دودھ، چاٹی کا خالص مکھن اور دیسی مرغی کا انڈا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ یہ اشیاء صرف وہی استعمال کرنی چاہئیں جو کارخانے کی مشینوں سے گزر چکی ہوں۔

اب حقیقت خدا ہی جانے مگر مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ جو مڈل کلاسیے یہ خالص اشیاء استعمال کرتے ہیں ان کے جملہ امراض کا شافی علاج اس گئے گزرے دور میں بھی ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب ہے۔ جبکہ مشینی بابو کی ہر بیماری اپنا علاج بھی سرحد پار ہی رکھتی ہے۔

بابو کے پروٹول کا اقبال بلند رہے کہ امراض کے باب میں بھی وی وی آئی پی کلچر پر تعامل رکھتا ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ اس کے لئے اوپر والے نے بیماریاں بھی اس کے پروٹوکول کے حساب سے ترتیب دے رکھی ہیں۔

یقین جانیے ایک دو بار بابو حضرات کی عیادت کے لئے جانا ہوا تو اپنی بیماریوں کے جو نام انہوں نے بتائے، ہمارے تو وہ سر کے اوپر سے گزر گئے اور اہم اس چکر میں تشریح نہ پوچھ پائے کہ دانشوری کا بھرم جاتا رہے گا۔ اب تو سیدھا سا اصول بنا لیا ہے کہ بابو سے یہ نہیں پوچھتے کہ اسے کیا بیماری لاحق ہے ؟ اس کی جگہ پہلا سوال ہی یہ داغتے ہیں “اب طبیعت کیسی ہے ؟” جواب ہر بار اتنا سا ہی ملتا ہے “بیٹر” اور اس کا مطلب سمجھنے میں ہم بفضل خدا خود کفیل ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سے مہنگی یورپین و جاپانی مصنوعات کی جگہ سستی چائنیز مصنوعات نے لی ہے، مڈل کلاسیوں کے لئے بھی بابو کی نقل آسان ہوگئی ہے۔ ہر عالمی شہرت والے برانڈ کی فرسٹ ہی نہیں سیکنڈ اور تھرڈ “کاپی” بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

ان میں سے فرسٹ کاپی کاکاپی ہونا تب ہی ثابت ہوتا ہے جب ہاتھ میں لے کر بغور جائزہ لیا جائے۔یوں تو مارکیٹ میں زیور بھی آرٹیفشل آچکا، جس کا فائدہ اٹھا کر ہماری خواتین بھی انڈین ڈراموں والی شکنتلا کی طرح آٹھ دس کلو زیور خود پر لاد ہی سکتی تھیں مگر اپنی اس عادت کے سبب ایسا کرنے سے محروم ہیں کہ اے بہن ! ذرا دکھانا تو” کہہ کر ہر چیز کا بغور جائزہ لینا شروع کردیتی ہیں۔

اس کے برخلاف مرد چونکہ یہ حرکت نہیں فرماتا سو مارکیٹ میں اب بابو بھی تھوک کے حساب سے دو نمبر دستیاب ہیں۔ ہم کافی عرصہ ایک خٹک صاحب کی فرسٹ کاپیوں سے متاثر رہے۔ کپڑے، جوتے، عینک، آئی فون اور لیپ ٹاپ سمیت ہر چیز فرسٹ کاپی۔ گھر اپنا کلفٹن میں بتاتے مگر مدعو کبھی نہ کرتے۔ ہمیشہ ملاقات کے لئے خود تشریف لاتے، اور ہر بار گاڑی الگ ہوتی۔ ہم یہ سمجھتے رہے کہ کلفٹن میں رہتے ہیں سو بہت سی گاڑیوں کے مالک ہیں، مگر ایک لوڈشیڈنگ گزیدہ شب میں ہمارا گزر قصبہ کالونی سے ہوا تو انہیں ان کے “شیش محل” کی دہلیز پر دھوتی بنیان میں تشریف فرما دیکھ لیا۔

اگلے دن اسی علاقے کے کچھ احباب سے سن گن لی تو پتہ چلا کہ ایک کمپنی کی گاڑیوں کی مینجمنٹ کی ملازمت فرماتے ہیں۔ دکھ بہت ہوا، کیونکہ جی ہی جی میں خود سے کہہ رکھا تھا کہ جس شوق سے یہ امیر آدمی ہم سے ملنے کلفٹن سے آتا ہے اس سے یہ امکان خاصا قوی ہے کہ ایک روز یہ ہمیں آئی فون ضرور گفٹ فرمائے گا۔ یوں ہم بھی دو چار لوگوں پر دھونس جما سکیں گے۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

ایک اور دو نمبر بابوؤں کے اس بازار میں اب بابو ایک کلاس کا نام نہیں رہا بلکہ یہ بابو پنے کے نام سے ایک کیفیت کا نام ہوچلا۔ نوعیت مختلف سہی مگر ہے یہ دونوں ہی سطح پر نفسیاتی مسئلہ۔ ایک نمبر بابو احساس برتری کا اسیر۔ اور دو نمبر بابو احساس کمتری کا مارا۔ اوپر سے سوشل میڈیا کا دور جہاں خود کو دانشور ثابت کرنے کی دوڑ زوروں پر۔

بابو پہلی کٹیگری کا ہو یا دوسری کا۔ دونوں کی ترجیح خود کو “لبرل” ثابت کرنا ہے۔ ہم نے نام نہاد لبرل دیکھ تو کئی رکھے تھے مگر کبھی کوئی لبرل “کنسٹرکٹ” ہوتے نہ دیکھا تھا۔ سو جانتے نہیں تھے کہ وہ کیا کیا پاپڑ ہیں جو لبرل بننے کے لئے بیلنے پڑتے ہیں ؟ مگر زیادہ خواری نہ اٹھانی پڑی۔ عین اپنی بغل سے ایک کو تعمیر ہوتا دیکھ لیا۔ اسے کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑا۔ اس کی تخلیق میں مرکزی کردار نائی اور درزی کا تھا۔ نائی نے داڑھی اڑائی اور دوسرے تیسرے ہفتے فیشل بھی کرنا شروع کردیا جبکہ درزی نے کرتا شلوار کی جگہ پینٹ کوٹ کا ناپ لے لیا۔

وضع قطع کی اس تبدیلی کے بعد اسے جو سب سے اہم کام کرنا پڑا وہ یہ تھا کہ دل و دماغ میں کچھ چیزوں کے مقام تبدیل کرنے پڑے جبکہ گفتگو میں کچھ حوالے بدل ڈالے۔ جو چیزیں اس نے پہلے اچھی کٹیگری میں رکھی تھیں، ان کا مقام تبدیل کرکے انہیں بری اشیاء کے لئے مخصوص خانے میں رکھدیا جبکہ بری اشیاء کو اٹھا کر اچھی اشیاء والے خانے میں سجا لیا۔

حوالے یوں تبدیل ہوئے کہ پہلے علامہ اقبال کے شعر پڑھتا، اب یکایک اقبال والا مقام جون ایلیا کو تفویض ہوگیا۔ ناول نگاروں میں مستنصر حسین تارڑ کے حوالے کی جگہ اورحان پاموک نے لے لی۔ اور فیوریٹ اینکر کا جو مقام ڈاکٹر شاہد مسعود کو حاصل تھا اس پر آفتاب اقبال کو فائز کرلیا۔اب زبان پر جون ایلیا، اورحان پاموک اور آفتاب اقبال ہوں اور دل میں ڈوگی نہ ہو تو گھر سونا سونا لگتا ہے۔ چنانچہ آخری ٹچ پپی کا ہی باقی تھا جو دے لیا گیا۔

لیجئے صاحب ! لبرلز کی تھرڈ کاپی تیار ہے۔ اس کاپی کو اب بس اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ہندوستان پر حملہ کرنے والا محمود غزنوی ڈاکو تھا جبکہ بغداد پر چڑھائی کرنے والے دونوں بش امن کے دیوتا تھے۔ بھارت اور اسرائیل بہت ہی اچھے ممالک ہیں جبکہ روس اور چین بہت ہی خبیث ممالک ہیں۔ مغربی سرحد کے اس پار افغانستان میں بیرونی حملہ آوروں سے لڑنے والوں کو تو صبح شام انتہاء پسند کہنا ہے لیکن مشرقی سرحد کے اس پار بھارت کی بجرنگ دل کے بارے میں چونچ بند رکھنی ہے۔

حج کے متبادل کے طور پر واٹر کولر کو پیش کرنا ہے۔ مگر اس کی تنصیب کے معاملے میں عمران حکومت جیسا ہی چلن رکھنا ہے۔ برقعے والی عورت پر تنقید کرنی ہے اور طوائف کے لئے “جواز” گھڑنے ہیں۔ یہ خود کو جتنا بھی لبرل بتائیں مگر کسی علمی بحث میں جائے بغیر اصل اور نقل کا فرق یوں عیاں ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کو جتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کنزرویٹو حلقے سے کرنا پڑتا ہے جبکہ مسلمانوں کو جب بھی حمایت میسر آتی ہے لبرلز سے آتی ہے۔

یہاں تک کہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں بھی لبرلز ان کے مددگار ثابت ہوتے ہیں جبکہ ہمارے دیسی لبرلز اس کے عین برعکس ہیں۔ ان کا عمومی چلن اور پھر بالخصوص اسلامی اقدار اور مشرقیت کے خلاف ان کا چلن امریکی لبرلز والا نہیں بلکہ کنزرویٹو ز والا ہے۔ کیوں ؟ کیونکہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ لبرلزم ہے کیا چیز ؟ آپ امریکہ کی مثال بھی چھوڑ دیجئے۔

یہاں پاکستان میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید ایک جینئن لبرل تھیں۔ انصاف سے بتایئے، ساری زندگی مولانا فضل الرحمن ان کے سب سے قابل اعتماد اور قریبی سیاسی رفیق رہے کہ نہیں ؟ لیکن اسی فضل الرحمن کے ساتھ دیسی لبرلز کا رویہ کیا رہتا ہے، یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔ ان تھرڈ کاپیوں کا خیال ہے کہ بس کوٹ پتلون پہننے، کھڑے ہوکر کھانا کھانے اور مشرقی اقدار پر طنز سے انسان لبرل ہوجاتا ہے۔

Related Posts