حقوقِ نسواں: فیمینزم کی تعریف، اہم خصوصیات اور اثرات و مضمرات

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حقوقِ نسواں: فیمینزم کی تعریف، اہم خصوصیات اور اثرات و مضمرات
حقوقِ نسواں: فیمینزم کی تعریف، اہم خصوصیات اور اثرات و مضمرات

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں حقوقِ نسواں کے حوالے سے خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے جبکہ حقوقِ نسواں کے علمبرداروں کو عوام الناس کی اکثریت فیمنزم سے جوڑتی نظر آتی ہے۔

Image result for Feminism

سوال  یہ ہے کہ فیمنزم کیا ہے؟ اس کی اہم خصوصیات، اثرات ومضمرات اور  فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟ کیا یہ کوئی اچھی بات ہے کہ آپ فیمنزم کی پیروی کریں یا اس بات کو معیوب سمجھنا درست ہے؟

فیمنزم کیا ہے؟

لغت (ڈکشنری) میں اگر لفظ فیمنزم کی تعریف تلاش کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے مراد خواتین کے حقوق کی حمایت کرنا ہے اور جو لوگ یہ حمایت کریں ان کایہ یقین رکھنا کہ مردوزن برابر ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں۔

Image result for Ladies discussion

آسان الفاظ میں فیمنزم سے مراد وہ طرزِ فکر ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ جنس کی بنیاد پر خواتین اور مردوں میں کسی بھی طرح کی تفریق، حقوق و فرائض میں فرق یا کسی بھی طرح کا امتیاز ناجائز ہے اور یہ  دونوں اصناف کو برابر سمجھتی ہے۔ 

فیمنزم کے حوالے سے یہ بات سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ فیمنزم کوئی اسلامی سوچ نہیں ہے، نہ ہی یہ کوئی اس قسم کی مساوات ہے جس کی بات اسلام نے 14 سو برس قبل کی بلکہ یہ ایک جدید طرزِ فکر ہے جو اسلامی نہیں کہی جاسکتی۔

اسلامی طرزِ فکر اور فیمنزم

آپ کو یاد ہوگا گزشتہ برس جب فیمنزم کے علمبرداروں نے عورت مارچ کے نام سے خواتین کے حقوق کی بات کی تو اسلام کے نام لیوا عوام کی اکثریت نے اس کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کی۔ یہ کیوں ہوا؟ کیا اسلام فیمنزم کا مخالف ہے؟

Image result for Islam

حقیقت یہ ہے کہ اسلام خواتین اور مرد حضرات کے مساوی حقوق کی بات تو کرتا ہے لیکن وہ خواتین کو مادر پدر آزادی دینے کا قائل نہیں ہے۔ مادر پدر آزادی سے ہماری مراد یہ ہے کہ شریعت نے خواتین پر کچھ ایسے فرائض لازم کیے ہیں جو مردوں پر لازم نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر قرآن میں واضح آیات موجود ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ خواتین کو گھروں سے نکلنے سے قبل پردے کا مکمل اہتمام کرنا چاہئے، مردوں کو خواتین پر کچھ معاملات میں برتری دیتا ہے اور وراثت میں حقوق دینے کے حوالے سے اسلام اور فیمنزم میں واضح فرق ہے۔

اگر ہم وراثتی حقوق کی بات کریں تو فیمنزم کے مطابق بیٹا اور بیٹی کا جائیداد میں حصہ برابر ہونا چاہئے جبکہ اسلام بیٹی کے حصے کو نصف رکھتا ہے، بیٹے کو اس سے دُگنا حصہ حاصل ہوتا ہے اور اسلام کے پرستار اسے جان و دل سے قبول بھی کرتے ہیں۔

اس بات پر طویل بحث ہوسکتی ہے کہ اسلام کے دئیے گئے وراثتی حقوق دراصل برابری کے ہی حقوق ہیں کیونکہ اسلام لڑکا اور لڑکی کی بنیاد پر نہیں بلکہ صاحبِ جائیداد، اس سے آپ کے رشتے اور معاشرے میں آپ کو دی گئی اسلامی حیثیت کے مطابق وراثتی حقوق کا تعین کرتا ہے۔فیمنزم کے ماننے والے مذہب سے الگ طرزِ فکر رکھتے ہیں۔ 

اہم خصوصیات 

فیمنزم کی اہم خصوصیات میں ترقی پسند ذہنیت، روشن خیالی یعنی مذہب سے دوری، قدامت پرستی سے نفرت اور فیشن کے ہر نعرے کی اندھا دھند تقلید شامل ہے جن میں سب سے اہم خاصیت خواتین کے حقوق کے نام پر مردوں کے جذبات مجروح کرنا شامل ہے۔

Image result for Man and woman

یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ فیمنزم کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک طرزِ فکر کا نام ہے۔ جو شخص اسلام پر یقین رکھتا ہو، ضروری نہیں کہ وہ فیمنزم کا مخالف ہو لیکن فیمنزم کے ماننے والے اسلام بیزار ضرور ہوسکتے ہیں۔

اثرات و مضمرات

فیمنزم کا سب سے بڑا اثر آپ کی ذات پر پڑتا ہے۔ لوگ آپ کو ایک الگ نظر سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ قدامت پرست سمجھتے ہیں کہ آپ مذہب سے بیزار شخص ہیں جبکہ ہماری رائے میں آپ کا مذہب بیزار ہونا ضروری نہیں ہے۔

Image result for Ladies protest

اس طرزِ فکر کے ماننے والے سب کے سب لوگوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا غلط ہوگا۔ اسلام کے زبردست پیروکاروں میں سے بے شمار افراد آج فیمنزم کے حامی نظر آتے ہیں جس پر زیادہ تنقید بھی نہیں کی جاتی۔

طرزِ فکر کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ آپ خواتین کی بعض معاملات میں بے جا حمایت بھی کرتے ہیں۔ مردوں کو ہر معاملے میں خواتین سے نیچے دکھانا بھی آپ کا طرزِ گفتگو ہوسکتا ہے جس پر شدید مخالفت سامنے آتی ہے۔

تیسرا اثر آپ کی ذات پر یہ ہوتا ہے کہ آپ بڑھ چڑھ کر خواتین کی وکالت شروع کردیتے ہیں۔ خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر سب سے زیادہ سوشل میڈیا پیغامات فیمنزم کے پرستاروں کی طرف سے دئیے جاتے ہیں۔

فیمنزم اچھا یا برا؟

کسی بھی طرزِ فکر میں شدّت پسندی نہیں ہونی چاہئے۔ جب ہمارے پیارے نبی ﷺ نے صحرائے عرب میں قدم رکھا اُس وقت باپ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ خواتین کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔

غور کیجئے تویہ شدّت پسندی کی قدامت پسند فکر تھی جو ظلم اور بربریت کو خواتین کے حقوق کے استحصال کے لیے جائز بلکہ ضروری قرار دیتی تھی۔ جاہلین سمجھتے تھے کہ اگر بیٹی کو زندہ دفن نہ کیا تو یہ ہماری عزت کی پامالی ہوگی۔

دینِ اسلام نے خواتین کو برابر کے حقوق دئیے۔ حضور ﷺ نے سمجھایا کہ شوہر جو خود کھائے ، اپنی بیوی بلکہ اپنے غلاموں کو بھی وہی کھلائے۔ جو خود پہنے، انہیں بھی وہی پہنائے۔ یہ مساوات کا زبردست اصول بن گیا۔

Image result for roza e rasool

جو راستہ دینِ اسلام نے دکھایا وہ اعتدال کا راستہ تھا۔ اس کے تحت خواتین کو جو حقوق دئیے گئے، بظاہر وہ مساوی نظر نہیں آتے، مثال کے طور پر وراثت میں بچیوں کے حقوق بچوں کے مقابلے میں نصف رکھے گئے۔

نصف حقِ وراثت کی بات بیٹے اور بیٹی کے معاملے میں اس لیے درست ہے کیونکہ اسلام کے نزدیک بیٹے کو آگے جا کر ایک پورا گھر سنبھالنا ہے جبکہ بیٹی کی کفالت کی ذمہ داری آگے چل کر اس کے شوہر پر عائد ہوگی۔

فیمنزم کے پیروکار یہ نہیں سوچتے کہ  اسلام کے مطابق اگر  صاحبِ اولاد بیٹا وفات پا جائے تو ماں اور باپ کو برابر برابر حصہ دیا جاتا ہے۔ ماں کو آدھا اور باپ کو دو گنا حصہ نہیں دیاجاتا۔

اسلام کی طرف سے مساوی حقِ وراثت کی دوسری مثال یہ ہے کہ اگر مرنے والے کی ایک ہی بیٹی تھی تو اسے پوری جائیداد کا نصف حصہ ملتا ہے اور باقی آدھی جائیداد اس کے بھائی بہنوں اور دیگر ورثاء میں تقسیم ہوتی ہے۔

حقِ وراثت کے اسلامی قوانین پر اگر بات جاری رکھی جائے تو بحث طویل ہوجائے گی۔ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ فیمنزم شدّت پسندی کی ایک جدید قسم ہے جو آج  اسلام کی اعتدال پسندی کے خلاف کھڑی ہے۔

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے خواتین کو مادرپدر آزاد کرکے درحقیقت اس کے حقوق کا استحصال چاہتے ہیں اور یہی فیمنزم کی حقیقت ہے۔ فیمنزم خواتین کو بے راہروی کی طرف لے جا رہا ہے۔ 

 

Related Posts