شہرِ قائد سے راولپنڈی جانے والی ہزارہ ایکسپریس کو پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں جاں بحق افراد کی تعداد 30 جبکہ زخمیوں کی 64سے زائد ہوگئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز ہزارہ ایکسپریس کی 10 بوگیاں سندھ کی تحصیل نواب شاہ کے قریب ٹریک سے اتر جانے کے نتیجے میں 30 سے زائد مسافر جاں بحق ہوئے جس کے بعد قریبی ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔
کراچی سے کونسی ٹرین کتنی تاخیر کا شکار؟ تفصیل سامنے آگئی
پاک فوج اور رینجرز کی آمد سے قبل مقامی افراد اور ریسکیو اہلکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی سرگرمیاں شروع کردیں۔ آرمی چیف کی ہدایت پر آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹر نے بھی جائے حادثہ پر پہنچ کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
خوفناک حادثے میں جاں بحق اور زخمی افراد میں خواتین، بچے اور بزرگ بھی شامل تھے۔ ڈی سی او ریلوے سکھر کی ہدایات پر سکھر ریلوے اسٹیشن پر ایمرجنسی انفارمیشن سینٹر قائم کردیا گیا جو زخمی اور جاں بحق افراد کی معلومات مہیا کرے گا۔
اس حوالے سے 2 ایمرجنسی ٹیلی فون نمبر 0719311166 اور 0715617676جاری کیے گئے جن کے ذریعے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جی او سی حیدر آباد ڈویژن کا میڈیا بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ جائے حادثہ سے زخمیوں اور لاشوں کو کلیئر کردیا گیا ہے۔ 3 سے 4 گھنٹوں میں ٹریک مکمل کلیئر ہوجائے گا۔
تاحال حادثے کی وجوہات پر تفتیش جاری ہے۔ وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ حادثہ دہشت گردی اور مکینیکل فالٹ کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ ٹرین کی رفتار 45 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ پہلے ریلیف کا عمل اور پھر تحقیقات کی جائیں گی۔
حادثے کی وجوہات کی تفتیش کیلئے ٹیم تشکیل دے دی گئی جس نے 3 نکات پر تحقیقات شروع کردیں کہ (1) کیا حادثے کی جگہ چھوٹا پل (کلورٹ) پر ٹریک بیٹھ گیا تھا؟ (2) کیا سرہاری اسٹیشن یارڈ میں ٹریک کو تخریب کاروں نے اکھاڑا تھا؟ (3) کیا پٹڑی سے اترنے والی بوگیوں میں کوئی مکینیکل نقص تھا جس سے حادثہ ہوا؟
ٹرین ڈرائیور کا کہنا ہے کہ میں ہزارہ ایکسپریس کو 40 سے 45 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر چلا رہا تھا۔ اس دوران اوور اسپیڈ نہیں ہوئی۔ اچانک ٹرین کو جھٹکا لگا تاہم میں ایمرجنسی بریک لگانے میں کامیاب رہا۔ حادثے کی وجوہات پر مزید تفتیش جاری ہے۔