موجودہ حکومت کسانوں کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئی، جو تقریباً ایک ہفتے سے اسلام آباد کی سڑکوں پر پاکستان کسان اتحاد کے بینر تلے احتجاج کر رہے تھے۔کسان ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے نرخوں کو ان کی سابقہ سطح پر واپس لانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ یوریا اور دیگر کھادوں کی قیمتوں میں کمی، گندم اور گنے کے نرخوں میں کنٹرو ل،زراعت سے متعلق کئی نئے ٹیکس اور لیویز کو واپس لینا اور نہروں کی صفائی اور کھیتوں کے لیے پانی چھوڑناان کے مطالبات میں شامل تھے۔
کسان اتحاد کے چیئرمین خالد بٹ نے پریس کانفرنس کی اور احتجاج ختم کردیا جس میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ بھی موجود تھے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ حکومت نے کسانوں کے مطالبات مان لیے ہیں،جس میں بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں تاخیر اور اقساط اور فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی منسوخی شامل ہے۔
دیگر مطالبات پر وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک وزارتی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں رانا ثناء اللہ بورڈ میں شامل ہیں، جو کسانوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرے گی اور معاہدے کی بہتر شرائط پر بات چیت کرے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم کسانوں کے لیے ایک یا دو ہفتوں میں ریلیف پیکج کا اعلان کریں گے، لیکن اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آیا اس پیکج میں مظاہرین کے مطالبات کو شامل کیا جائے گا۔
معاہدہ طے پانے سے پہلے ہی رانا ثناء اللہ نے واضح کر دیا تھا کہ حکومت ان کے ”جائز مطالبات“ تسلیم کرے گی۔ رانا ثناء اللہ کے بیانات پر غور کرتے ہوئے کئی مبصرین حیرت میں مبتلا ہیں کہ حکومت نے پہلے دن سیاست دانوں کو مذاکرات کے لیے کیوں نہیں بھیجا،جب کسانوں کے رہنماؤں نے محسوس کیا کہ حکومت ان کے ”جائز مطالبات” کوتسلیم نہیں کررہی ہے، تو انہوں نے بھی اپنے احتجاج کو ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کسانوں نے دراصل اپنے مطالبات گزشتہ ماہ کے اوائل میں ہونے والے ایک احتجاج میں کیے تھے، اور حکومت نے انہیں مان لیا تھا لیکن عمل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رانا ثناء اللہ کے وعدوں کے باوجود کسانوں کے پاس محتاط رہنے کی معقول وجہ ہے۔