سرحد پار سے دہشت گردی

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کی جانب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد شادیانے بجانا صرف وقتی خوشی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کیونکہ شادیانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے اپنی خارجہ پالیسی کا رخ موڑنا بھی ضروری تھا۔

ہم اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ اب شاید افغان سرزمین پاکستان کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی اور وہ افغان طالبان جن کی ہم نے پچھلے 40 سال سے آبیاری کی ہے اب وہ ہمارے ہم خیال رہیں گے اور اپنی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہیں ہونے دینگے لیکن یہ صرف خام خیالی رہی کیونکہ نہ صرف طالبان ہم سے رخ موڑنے لگے بلکہ  بھارت نے بھی طالبان سے اپنی پینگیں بڑھانا شروع کردیں اور اس وقت بھارتی ایک بار پھر افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا کر ہمارے لئے مسائل پیدا کررہے ہیں۔

ہمیں گزشتہ برس اگست میں ہی یہ بھانپ لینا چاہیے تھا کہ طالبان حکومت میں آنے کے بعد اپنا رویہ تبدیل بھی کرسکتے ہیں اس کا ثبوت یہ بھی تھا کہ اشرف غنی کے دور میں تحریک طالبان کے جن 800 کارکنان کو گرفتار کیا گیا تھا ان کو افغان طالبان نے رہا کردیا لیکن پاکستان کے حوالے نہیں کیا اور یہ رہائی پانے والے ٹی ٹی پی کے ارکان دوبارہ پاکستان کیخلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
ہمارے تخمینے غلط ثابت ہوئے یعنی حالات کی مس کیلکولیشن، دوسری بات خوش امیدی اور خام خیالی ہے یعنی جب اگست 2021 میں طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا تو پاکستان نے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے اس امید پر کوئی تیاری نہیں کی کہ نئی حکومت کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم ہوجائیں گے۔

طالبان کی جانب سے یہ بیان کہ افغان سرحد کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کیا جارہا، یہ 28 فروری کا دوحہ ایگریمنٹ ہے جس کا عکس سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی نظر آتا ہےاور سلامتی کونسل نے بھی اپنی قرار داد میں اس بات پر زور دیا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کیلئے دہشت گردی کا سبب نہیں بنے گی اور افغان سرزمین کسی دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی۔

عالمی برادری افغانستان سے چاہتی ہے کہ افغان سرزمین طالبان کے زیرِ قبضہ آجانے کے بعد کسی دہشت گرد کی آلۂ کار نہ بنے اور افغان حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ یہ تمام تر حقائق معاہدے میں لائے گئے ہیں اور سلامتی کونسل کی ایک نگرانی ٹیم بھی ہے جو تمام تر عوامل پر عملدرآمد کا جائزہ لیتی ہے۔

سلامتی کونسل کی اسی کمیٹی نے یہ ثبوت فراہم کیے کہ ٹی ٹی پی اور داعش سمیت دیگر دہشت گرد گروہ ابھی تک افغانستان سے آپریٹ کر رہے ہیں۔ اس لیے طالبان حکومت کو صرف پاکستان یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کے لوگ سرحد پار سے دہشت گردی نہ کریں بلکہ عالمی برادری کے دیگر ممالک کا بھی ان سے یہی مطالبہ ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کے ادارے بھی افغانستان میں کام کر رہے ہیں جو عالمی برادری کے ساتھ ساتھ افغان حکومت پر الگ سے دباؤ ڈال سکتی ہیں کہ دہشت گردی کا قلع قمع کیا جائے۔ ہم افغانستان میں بہتر طرزِ حکومت کے خواہاں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان میں پہلے مجاہدین لائے گئے اور پھر مجاہدین طالبان میں بدل گئے جبکہ پاکستان دہائیوں سے افغانستان سے اپنے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔

اگر ہم ماضی کی پالیسی کا تسلسل جاری رکھیں تو افغانستان کے ساتھ ہمارے مذاکرات کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔ طالبان ، جنگجو گروہوں اور ٹی ٹی پی وغیرہ کے ساتھ صرف حکمتِ عملی یا طرزِ عمل کا فرق نہیں بلکہ یہ الگ الگ گروہ ہیں جو مختلف نظریات میں بٹے ہوئے ہیں لیکن اپنے دشمن کیخلاف یکجا ہوجاتے ہیں۔

جنگجو گروہوں نے افغانستان میں ایک ساتھ رہتے ہوئے امریکا اور نیٹو فورسز سے جنگ کی اور اس سے قبل روس سے بھی لڑے۔ آج کل افغانستان میں پائے جانے والے یہ جنگجو گروہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قائم جمہوری حکومت کے بھی نظریاتی طور پر خلاف ہیں اور وہ افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔

خاص طور پر ٹی ٹی پی اور کچھ طالبان سے تعلق رکھنے والے عناصر بھی ایسے ہی نظریات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز پر مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں، جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسی را اور مودی حکومت نے بھی افغانستان کے جنگجو گروہوں کو پاکستان کے خلاف اکسانے اور دہشت گردی پر مبنی حملے کرنے کیلئے اچھا خاصا بجٹ مختصر کر رکھا ہے۔

جب 2021 میں افغانستان پر طالبان کی نئی حکومت قابض ہوئی تو ہمارا خیال تھا کہ یہ حکومت جنگجو گروہوں کو قابو میں کرے گی، تاہم یہ جنگجو گروہوں کا جتھہ ایک بار پھر منظم کیا گیا اور انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے، جیسا کہ ہمیں افغانستان سے بھی اشارے موصول ہورہے ہیں اور یہ تہہ در تہہ پیچیدہ مسئلہ ہے جس کا پاکستان کو سامنا ہے۔

آج پاکستانیوں کو من حیث القوم اپنے دست و بازو مضبوط کرنے ہوں گے، جیسا کہ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن رد الفساد اور ضربِ عضب جیسے آپریشنز کے دوران کیا تھا، تاہم نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے دوران کچھ نکات کو کمزور چھوڑ دیا گیا تھا، جن پر آج پھرپور عمل کی ضرورت ہے۔

مثال کے طور پر ملک کی سیاسی قیادت کا اس نکتے پر اتفاق کرنا، فاٹا اصلاحات پر عملدرآمد اور سندھ سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے ساتھ ساتھ نیکٹا کو ری ایکٹیویٹ کرنا بھی مذکورہ بالا نکات میں شامل ہے۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کیلئے قانونی سفارتکاری، سرکاری سفارتکاری اور روایتی سفارتکاری کا سہارا لے سکتا ہے۔

دوسرا نکتہ دہشت گردی کے کنٹرول کیلئے فورسز کا استعمال ہے اور ہماری سکیورٹی فورسز بھرپور طریقے سے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں پیش پیش ہیں اور یہ بات راقم الحروف نے بارہا کہی کہ طالبان سے ہمارے معاملات کا حل پہلے ہی نیشنل ایکشن پلان میں موجود ہے۔

تاہم تمام تر مسائل کے حل کیلئے ہمیں بڑے بجٹ اور ذرائع کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے جو 131 صفحات کا ڈوزوئیر دیا ہے، اس کیلئے سفارتی مشنز کو مکمل بریفنگ دینی چاہئے اور عالمی برادری میں ایسے ممالک کے ذریعے جہاں انسانی حقوق کے نمائندے موجود ہیں، اس پر آواز اٹھانی چاہئے، یہ تمام تر عوامل نہ صرف افغانستان بلکہ بھارت پر بھی دباؤ بڑھانے کا باعث بنیں گے اور پھر سلامتی کونسل میں ایک قرارداد بھی پیش کی جاسکتی ہے جہاں ویٹو پاورز کا استعمال بھی پاکستان کے حق میں ہونے کے زیادہ امکانات ہوسکتے ہیں لیکن اس کیلئے جارحانہ سفارتکاری ضروری ہے۔

اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے ابواب 5، 6، 7فعال کرکے بھارت جیسے ممالک کو بھی دہشت گردی کی پشت پناہی سے روکا جاسکتا ہے ، ہم یہ امید نہیں کرسکتے کہ افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ سرحدپار سے فائرنگ جیسے معاملات درست کرے گی۔ اس لیے ڈوزوئیر کی فراہمی کے بعد سے پاکستان کو مستقل مزاجی اور طویل المدت سفارتکاری کا سہارا لینا ہوگا اور سفارت کی یہ جنگ جیتنا ہوگی۔

پاکستان قبائلی سمت سے بھی حمایت حاصل کر رہا ہے، تاہم اس محاذ پر بھی ہمیں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان پر زیادہ سے زیادہ دباؤ پڑے اور قبائلی عوام کے اپنے مفادات ہوتے ہیں کہ ایک کزن افغانستان میں ہے تو دوسرا پاکستان میں تو یہ رشتہ داریاں بھی دیکھنی پڑتی ہیں۔

سرحد پار سے فائرنگ اور دہشت گردی کے علاوہ اسمگلنگ اور دیگر جرائم بھی ہوتے ہیں جن پر پاکستان کو نظر رکھنے اور لگام دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک سرحد سے دوسری سرحد تک پھیلے ہوئے رشتوں اور تعلقات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سفارتکاری کے محاذ پر اپنی کاوشوں کو تقویت دینا ہوگی۔

ہمارے قبائلی لوگ وطن سے بے حد محبت کرنے والے ہیں اور ہمارے ان سے تعلقات بے حد گہرے اور برادرانہ ہیں اور وہ افغانستان پر دباؤ ڈالنے میں پاکستان کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ افغان طالبان میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور پاکستان خطے کے ممالک بالخصوص چین اور روس سے بھی اس ضمن میں آواز اٹھانے کیلئے کہہ سکتا ہے۔

روس اور چین کے علاوہ ایران بھی پاکستان کی مدد کرسکتا ہے جبکہ یہ تمام تر ممالک پہلے ہی افغانستان کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور کم و بیش وہی نظریات اور مؤقف رکھتے ہیں جو پاکستان کا افغانستان کے متعلق ہے۔ سو جب ہم سلامتی کونسل میں قرارداد منظور کرانے کیلئے آگے بڑھیں تو عالمی برادری ہمارے ساتھ ہوگی۔

امریکا پہلے ہی پاکستان کو سی ٹی ڈی کے معاملے پر ہر ممکن تعاون کا کہہ چکا ہے تاہم اس معاملے میں ہم تلوار کی دھار پر چل رہے ہیں کیونکہ امریکا کے تعاون سے کیا مراد ہے، یہ جو بائیڈن حکومت ہی جانتی ہے۔ امریکا اور چین کے مابین پہلے ہی ٹھنی ہوئی ہے اور سی پیک منصوبے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے امریکا کچھ معاملات میں پاکستان کے خلاف بھی ہے۔

سی پیک کا معاملہ اور پھر امریکا کی طرف سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کو بڑی احتیاط سے دیکھنا ہوگا کیونکہ سفارتکاری کا یہ معاملہ بے حد پیچیدہ ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ سلامتی کونسل میں قرارداد منظور کروائیں اور ہمسایہ ملک بھارت سے بھی ہوشیار رہیں جو افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا آیا ہے اور مستقبل میں بھی وہ اسی پالیسی پر گامزن رہے گا۔

ہم نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے اور انہیں محدود بھی کیا ہے، جس سے طالبان حکومت کو بھی پتہ چلا ہے کہ ہم چپ بیٹھنے والے نہیں ہیں اور دہشت گردی کا خاتمہ کرکے ہی دم لیں گے۔ دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور ہمیں بھرپور قوت سے اس کا جواب دینا ہوگا۔ سفارتکاری کے محاذ پر، دو طرفہ سطح اور خطے کی صورتحال دیکھتے ہوئے کثیر المقاصد سوچ اپنانا ہوگی۔

پاکستان کو امریکا کی طرف سے ممکنہ امداد حاصل کرنے سے پہلے نہایت دانشمندی سے یہ تاثر دینا ہوگا کہ یہ امداد افغانستان میں آپریشن کیخلاف استعمال نہیں کی جائیگی ۔

امریکا سے آنے والے حالیہ بیانات سے افغانستان میں طالبان کو یہ تاثر نہ ملے کہ شاید پاکستان دوبارہ افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں حصہ لینے جارہا ہے اور امریکا کے ساتھ ملکر افغانستان میں بھی آپریشن کرسکتا ہے۔

ایسا تاثر پاکستان کو ایک بھیانک منظر نامے کی طرف دھکیل سکتا ہے جس سے بچنا بہت ضروری ہے ورنہ پاکستان ایک ایسی دلدل میں پھنس سکتا ہے جس سے اس بار نکلنا مشکل اور پیچیدہ بھی ہوسکتا ہے۔

Related Posts