بیجنگ : کورونا وائرس کے خلاف کام کرنے والے طبی عملے میں بے خوابی اور بے چینی بڑھنے کا انکشاف ہوا ہے، چین میں محققین کی ایک نئی تحقیق میں کورونا پھیلنے کے دوران اسپتال کے عملے میں تناؤ اور دماغی صحت متاثر کی نشاندہی کی گئی ہے۔
معروف جریدے فرنٹیئرز میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ نے پوری دنیا کے صحت کے نظام پر سخت دباؤ ڈالا ہے۔
کورونا کا فرنٹ لائن میڈیکل پریکٹیشنرز پر بھی شدید اثر ہواہے، صحت سے متعلق کارکنان ان گروہوں میں سے ایک ہیں جن میں انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے، وبائی مرض کے خلاف فرنٹ لائن پر کام کرنے کے منفی نفسیاتی اثرات بھی نمایاں رہے ہیں۔
اس مضمون کے متعلقہ مصنف ڈاکٹر بن ژانگ اور ان کے ساتھی نے چین میں کورونا پھیلنے کے دوران صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو درپیش انتہائی مشکل حالات کی وضاحت کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ مختصر تربیت کے بعد طبی عملہ کو کورونا کے خلاف جنگ میں شامل کیا گیا،ایک بار اسپتال تیزی سے کورونا کا مرکز بننے کے بعد ناکافی آلات کی وجہ سے انٹریم اور کلین زون پر مشتمل الگ تھلگ کمرے قائم کرنا ممکن نہیں تھا۔
حفاظتی ساز و سامان کو ہٹاتے وقت انفیکشن سے بچنے کے لئے عملہ کے ممبران اوقات کار کے دوران غسل نہیں کرسکتے، کھا یاپی نہیں سکتے کوئی چیز استعمال نہیں کرسکتے ہیں، پسینے کی وجہ سے عملے کوپانی کی کمی ہوتی ہے۔
قرنطینہ کے علاقے میں کام کرنے والے طبی عملے کو ہمیشہ متاثرہ لوگوں کے ساتھ قریبی رابطہ برقرار پڑتا ہے جس کی وجہ سے تناؤ بے خوابی کا سبب بنتا ہے اور وسیع پیمانے پر بے خوابی زیادہ تناؤ کا سبب بنتی ہے۔
مزید پڑھیں:کورونا طویل عرصہ ہمارے ساتھ رہے گا،غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، عالمی ادارہ صحت