موسمیاتی تبدیلی اور انسانی ضروریات

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Climate Change and Human Needs

موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کے عوام زیادہ تر واقف نہیں ہیں۔ تقریباً 15 سال پہلے جب اس موضوع کا ذکر ہوتا تو یہ بات عجیب لگتی تھی۔ اگر کوئی موسمیاتی تبدیلی کی بات کرتا تو لوگ شاید اسے بےوقوف سمجھتے تھے۔ مگر آج عوام موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو سمجھنے لگے ہیں۔

دنیا اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے زیر اثر ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک، جو اس مسئلے سے زیادہ متاثر ہیں۔ تقریباً ہر سال دنیا بھر میں 189 ملین لوگ موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہو رہے ہیں، اور متاثرہ ممالک میں نائیجریا، افغانستان، فلپائن، جاپان، بنگلہ دیش، پاکستان، جنوبی سوڈان، چاڈ، فیجی، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو، ایتھوپیا، سری لنکا، سومالیہ، سینٹرل افریقن ریپبلک، ہیٹی، یمن، بھارت، اور شام شامل ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی ضروریات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انسان اپنی سہولت کے لئے نئی ایجادات میں مصروف ہے، مگر ان ایجادات کے دوران پیدا ہونے والے نقصانات کے بارے میں کم ہی سوچا جاتا ہے۔ بہت سی ایجادات کے بننے کے عمل میں بڑی مقدار میں دھواں اور آلودگی پیدا ہوتی ہے، جس کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے موسم پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

تجارتی سرگرمیوں میں بحری جہازوں اور ٹرکوں کے ذریعے اشیاء کی ترسیل کی جاتی ہے۔ یہ اشیاء جب مارکیٹ میں پہنچتی ہیں تو اس کے دوران فیکٹریوں، بحری جہازوں اور ٹرکوں سے خارج ہونے والا دھواں فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے، جس کے نتیجے میں موسم کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اور کراچی سے گلگت بلتستان کا سفر

موٹر کاروں اور ٹرینوں کے ذریعے سفر کی سہولت تو ملتی ہے، مگر ایسی بہت سی گاڑیاں آج بھی آلودگی پھیلانے کا باعث ہیں۔ کھیتوں میں استعمال ہونے والے ٹریکٹر بھی دھوئیں کا اخراج کرتے ہیں، جو کہ ایک طرف انسانی ضرورت کی خاطر کھیتوں میں کام کر رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہے ہیں۔

سگریٹ نوشی بھی ایک ایسا عمل ہے جس کا اثر عالمی سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاکھوں لوگ سگریٹ نوشی کرتے ہیں، اور ایک سگریٹ کے جلنے سے خارج ہونے والا دھواں بھی موسمیاتی تبدیلی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ اس کی ایک سگریٹ پینے سے کیا فرق پڑے گا، مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ دھواں بھی ماحولیاتی مسائل کا حصہ ہے۔

پلاسٹک کی بوتلیں بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ لوگ پانی اور دیگر مشروبات پینے کے بعد انہیں سڑکوں پر یا کچرے میں پھینک دیتے ہیں۔ ایک پلاسٹک کی بوتل کس قدر خطرناک ہے، یہ نہ تو بوتل بنانے والے کو معلوم ہے، نہ بیچنے والے کو، اور نہ ہی خریدنے والے کو۔

لوگ گھروں کی تعمیر میں ایسے طریقے اپنا رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ رہائشی کمروں کی تعداد ہو، جبکہ پہلے لوگ اپنے گھروں میں درخت اور پودے لگاتے تھے۔ پاکستان کے کئی اضلاع میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشیں نہیں ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے پانی کی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں لوگ پانی حاصل کرنے کے لئے دور دراز کا سفر کرتے ہیں، جبکہ شہریوں کو پانی حاصل کرنے کے لئے بھاری رقم ادا کر کے ٹینکروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
جہاں پانی آتا ہے، وہاں بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ ورکشاپوں میں گاڑیوں کی دھلائی، گھروں میں صفائی، اور برتن دھونے کے دوران نل کھولے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ صحیح وقت پر نل بند کرنا اکثر لوگوں کے لئے ناگوار گزرتا ہے۔

ہم خود اپنی موت کے ذمہ دار؟؟؟

کیا ہم اپنی زندگی کا نصب العین تبدیل کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی ضروریات میں ایسی تبدیلی لا سکتے ہیں کہ ایسی اشیاء کا استعمال کریں جو موسم پر اثر انداز نہ ہوں؟ اور کیا ہم پانی کا استعمال اس طرح کر سکتے ہیں کہ اس کا ضیاع روکا جا سکے؟

جب تک ہم اپنے رہن سہن میں تبدیلی نہیں لائیں گے، ہم موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات کو کم نہیں کر سکیں گے۔ موسمیاتی تبدیلی کا انحصار انسانی ضروریات پر منحصر ہے۔

Related Posts