ایران اور طالبان حکومت میں جھڑپیں، آخر تنازع کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

حالیہ دنوں میں افغانستان اور ایران کے درمیان کشیدگی اس وقت اچانک عروج پر پہنچ گئی جب ایک سرحدی چوکی کے قریب فائرنگ کے شدید تبادلے میں کم از کم تین افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس جھڑپ کی جڑیں دونوں پڑوسیوں کے مشترکہ آبی وسائل پر حقوق کے تنازع میں پیوست ہیں۔

اتوار کے روز ایرانی اور افغان سرحدی سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی میں نرمی آئی اور دونوں فریق کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت میں مصروف رہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطے کے ممالک اور خاص طور پر افغانستان اس وقت کسی تنازعے کے متحمل نہیں ہوسکا۔ اس قسم کا کوئی تنازع بندوق کی جنگ کی صورت میں شروع ہوسکتا ہے جیسا کہ حالیہ ایران میں واقع ساسولی سرحدی چوکی پر دیکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:

کراچی میں بیوی کو بے دردی سے قتل کرنے والا شوہر گرفتار

چند ہفتے قبل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے طالبان کو خبردار کیا تھا کہ وہ مشترکہ دریائے ہلمند پر ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں اور 1973میں طے پانے والے دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی سے گریز کریں۔

العربیہ کی رپورٹ کے مطابق دریائے ہلمند کا پانی ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل مسافت پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ دریا افغانستان سے ایران کے بنجر مشرقی علاقوں میں بہتا ہے۔ کابل کی جانب سے بجلی پیدا کرنے اور زرعی زمین کو سیراب کرنے کے لیے ڈیم بنانے کے فیصلے کی وجہ سے تہران تشویش میں پڑ گیا ہے۔

ایران کو حالیہ برسوں میں پانی کی کمی کے بڑھتے ہوئے مسائل کا سامنا ہے اور اس حوالے سے 2021 میں ایرانی کسانوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 97 فیصد ایران کو کسی نہ کسی سطح پر خشک سالی کا سامنا تھا۔

ہلمند کے پانی کی تقسیم کے معاملے پر 18 مئی کو افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔ ہفتہ کو ایک بار پھر متقی نے کابل میں ایرانی سفیر حسن کاظمی قم سے ملاقات کی جس میں پانی کے مسائل سمیت دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان نے ٹویٹر پر کہا ہے کہ وزیر خارجہ امیر متقی نے یہ بھی کہا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان مسائل کو باہمی بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے بہتر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔

امیر متقی نے اس ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ طالبان 1973 کے معاہدے پر بڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان اور خطے میں طویل خشک سالی کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

یاد رہے افغانستان کو اپنے تیسرے سال خشک سالی کا سامنا ہے، افغانستان کو بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کی طرف سے جاری 2023 کی ہنگامی واچ لسٹ میں تیسرے نمبر پر رکھا گیا تھا۔ سیستان اور بلوچستان کے رہائشیوں کو مخاطب کرتے ہوئے متقی نے کہا کہ افغانستان آپ کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہے۔

امیر متقی نے 22 مئی کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں ایرانی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ پانی کے اس اہم مسئلے پر سیاست نہ کرے۔ ہمارے لیے بہتر ہے کہ میڈیا میں ریمارکس دینے کے بجائے افہام و تفہیم اور براہ راست بات چیت کے ذریعے ایسے مسائل کو حل کیا جائے۔

انہوں نے کہا گزشتہ دو سالوں کے دوران، امارت اسلامیہ افغانستان نے قابل کنٹرول مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ لیکن انسانی صلاحیتوں سے ماورا قوت (موسمیاتی تبدیلی) کو بھی سمجھنا چاہیے اور اس کو مد نظر رکھ کر ہی حل تلاش کرنا چاہیے۔

امیر متقی کے اس بیان کے باوجود دونوں ملکوں میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی جو جھڑپوں میں تین افراد کے جاں بحق ہونے تک پہنچ گئی۔

مبصرین کے خیال میں جیسے جیسے پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے، افغانستان ممکنہ طور پر مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرے گا۔ طالبان ایران کے ساتھ تعطل سے گریز کریں گے۔ چالیس سالہ جنگ کے بعد افغانستان ایک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے اور تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ افغانستان ہمسایوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے چیلنجوں کو حل کرنے میں بہتر رہا ہے۔

Related Posts