مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے چینی تیار کرنے والے کارخانہ داروں کی نمائندہ تنظیم پر گٹھ جوڑ کے ذریعے قیمت مقرر کرنے کے جرم میں 44 ارب روپے کا جرمانہ عائد کردیا۔
جمعے کی شام مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے ایک بیان میں بتایا گیا کہ جرمانہ شوگر ملز ایسوسی ایشن آف پاکستان پر لگایا گیا ہے، جس کی ادائیگی آئندہ دو ماہ میں کرنا ہوگی۔مسابقتی کمیشن پاکستان میں صنعتی مقابلے میں مدد فراہم کرنے کا ذمہ دار ادارہ ہے اورکمیشن نے پہلی مرتبہ کارٹیلائزیشن کے خلاف تحقیقات کیں اور جرم ثابت ہونے پر سی سی پی نے پہلی مرتبہ سب سے زیادہ 44 ارب روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا ہے۔
کمیشن کے فیصلے کے مطابق مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے دسمبر 2019 میں تقریباً 80 شوگر ملوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا، جس میں تفتیشی کمیٹی نے شوگر ملز ایسوسی ایشن ریکارڈ کا جائزہ لیا جس سے ثابت ہوا کہ 2012 کے بعد سے ملک میں چینی کی قلت اور اس کی قیمتوں میں اضافے کے پیچھے شوگر ملز کے مشترکہ فیصلے شامل تھے، جو مسابقتی کمیشن ایکٹ کے سیکشن فور کی خلاف ورزی ہے۔
سی سی پی کی تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ شوگر ملز نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا چینی کا کوٹہ گٹھ جوڑ کے ذریعے حاصل کیا اور گٹھ جوڑ ہی کے ذریعے چینی برآمد بھی کی، جس کی وجہ سے ملوں کی نمائندہ ایسوسی ایشن پر جرمانہ عائد کیا گیاہے،مسابقتی کمیشن کے دو اراکین نے فیصلے کے حوالے سے اختلافی نوٹ دیا جبکہ چیئرپرسن سمیت دیگر دو اراکین نے فیصلے کے حق میں ووٹ استعمال کیاتاہم ووٹ برابر ہونے پر چیئرپرسن نے دوسری بار اپنا ووٹ فیصلے کے حق میں دیا۔
پاکستان میں مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس میں حکومت سے زیادہ بااثر تنظیموں کا کردار ہوتا ہے، مسابقت نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ملز مالکان کارٹیلائزیشن کے ذریعے اپنے من مانے فیصلے مسلط کردیتے ہیں جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، کارٹیلائزیشن کی وجہ سے ایک بار جس چیز کے دام ایک بار بڑھ جاتے ہیں وہ شاذو نادر ہی واپس نیچے آتے ہیں اور دیگرآپشنز کم ہونے کی وجہ سے حکومت کو باامر مجبوری طاقتور گروہوں کے سامنے جھکنا پڑتا ہے۔
دنیا بھر میں کاروباری گٹھ جوڑ یا اجارہ داری قائم کرنا خاصی پرانی روایت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف ریاستی ادارے بھی سرگرم رہتے ہیں۔
پاکستان میں بااثر سرمایہ دار اپنی مرضی کی قیمتیں مقرر کرتے ہیں اور من مانیوں کیلئے نئے اداروں کو پنپنے کی اجازت نہیں دیتے تاکہ ان کی اجارہ داری قائم رہے ہیں۔ پاکستان میں آٹا، چینی، خوردنی تیل ، گھی اور دیگر اشیاء خوردونوش کی قیمتیں کارٹیل ہی کنٹرول کرتے ہیں اور مسابقتی کمیشن کی جانب سے عائد کئے جانیوالے جرمانوں کو عدالتوں میں چیلنج کرکے راہ فراہ اختیار کرلی جاتی ہے۔
کارٹل بنانے کا مقصد زائد منافع حاصل کرنا اور قیمتوں کو ایک سطح سے نیچے آنے سے روکنا ہوتا ہے اور اس کو کاروبار میں غیر مسابقتی رجحان تصور کیا جاتا ہے۔مختلف ملکوں نے اس رجحان کے خلاف مختلف قسم کے قواعد و ضوابط اور قوانین بنا رکھے ہیں۔ گٹھ جوڑ کر کے یا کاروبار پر اجارہ داری قائم کرکے زائد منافع کمانا جرم ہے لیکن اس کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔
جہاں تک مسابقتی کمیشن کے اقدام کا سوال ہے تو ادارہ نے اپنی بساط کے مطابق بہترین کام کیا ہے اور اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی ہے کیونکہ جب تک کالا بازاری کرنیوالوں کو سزائیں نہیں ملیں گی پاکستان میں مہنگائی کا عفریت قابو میں نہیں آئیگا۔
اب حکومت بالخصوص وزیراعظم عمران خان خود اس معاملے کوانجام تک پہنچائیں تاکہ ملک میں مصنوعی مہنگائی کرکے عوام کو پریشان کرنے والے مافیاکو سبق ملے اور مسابقتی کمیشن کو مزید فعال اور بااختیار بنایا جائے تاکہ کارٹیلائزیشن اور مصنوعی مہنگائی اور کالابا زاری جیسے مسائل سے نمٹا جاسکے۔