عالمی شہرت یافتہ میزبان کا انتقال

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

امریکا کے عالمی شہرت یافتہ میزبان لیری کنگ گزشتہ روز 87 برس کی عمر میں کورونا وائرس میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کے باعث ان کا مشہور شو دیکھنے والے ہزاروں امریکی اور بین الاقوامی مداح سوگوار ہیں جبکہ اسے ایک تاریخی عہد کا اختتام قرار دیا جاسکتا ہے۔

لیری کنگ ریڈیو، ٹی وی، صحافت اور میڈیا سے گزشتہ 63 برس سے منسلک رہے تاہم وہ سی این این کے ساتھ سب سے زیادہ مشہور ہوئے جس کے بعد ان کا نام میڈیا پر سب سے زیادہ پر اعتماد اینکر پرسن کے طور پر لیا جانے لگا۔ جب عالمی رہنما میڈیا پر جاتے تو لیری کنگ سے گفتگو کیا کرتے تھے اور انہیں یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں۔ اپنے کیرئیر میں لیری کنگ نے 50 ہزار سے زائد افراد کے انٹرویوز کیے جن میں سیاستدان، نامور شخصیات اور قاتل تک شامل تھے۔

سی این این کے ساتھ لیری کنگ کے کیرئیر کا اختتام 2010ء میں ہوا لیکن یہ معروف میزبان میڈیا کے ساتھ منسلک رہے اور اسٹریمنگ سائٹس پر کام کیا۔ گزشتہ برس ان کے 2 بچوں کی دردناک موت نے انہیں سوگوار کردیا تھا۔ لیری کنگ کی وفات سے امریکی میڈیا کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی ایک سوگ کی فضا طاری ہے۔

تقریباً 100 برس سے امریکی میڈیا کام کر رہا ہے جس نے بہت سے لیجنڈری میزبانوں کو ترویج دی اور انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ والٹر کرونکائٹ جو 50 سال تک سی بی ایس سے منسلک رہے، انہیں امریکا کا سب سے پر اعتماد شخص کہا جاتا تھا۔ نکسن، جان ایف کینیڈی اور لنڈن جانسن جیسے امریکی صدور خبریں حاصل کرنے کیلئے ان سے رابطے میں رہتے تھے۔ جب امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا قتل ہوا تو کرونکی نے 35 منٹ انتظار کیا تاکہ خبر کی تصدیق حاصل کی جاسکے۔

ایسے لوگ میڈیا کی اخلاقیات اور صحافت کے معیارات کا مان بڑھاتے ہیں جو آج میڈیا سے الگ ہو چکے ہیں جبکہ آج میڈیا ریٹنگز اور افراتفری پھیلانے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ٹاک شوز بدنام ہوچکے ہیں اور مارننگ شوز کے خلاف عوام کا غم و غصہ عروج پر ہے۔ میڈیا عوام تک معلومات پہنچانے کا صحیح ذریعہ ثابت نہیں ہوسکا جبکہ عوام کو جھوٹی خبریں، پریشان کن ہیجان اور مواد کی کمی نے بے چین کردیا ہے۔

پاکستانی میڈیا قیامِ پاکستان کے وقت سے اپنا ایک وجود رکھتا ہے اور براڈ کاسٹ میڈیا گزشتہ 2 دہائیوں سے موجود ہے لیکن ہمیں والٹر کرونکی اور لیری کنگ جیسی شخصیات پیدا کرنا ہوں گی جو میڈیا کیلئے ایک لمبا سفر ثابت ہوسکتا ہے اور آج پاکستانی میڈیا انڈسٹری اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف نظر آتی ہے۔ 

Related Posts