جنوری 2024 تک مزید 6 ممالک بشمول ارجنٹائن، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات برکس میں شامل ہونے کیلئے تیار ہیں۔
تمام 6 ممالک کیلئے رکنیت کیلئے باضابطہ درخواست دی تھی اور برکس کی 11 رکن ریاستوں تک توسیع ان کی سلامتی اور اقتصادی تعاون کیلئے متبادل مکینزم کے طور پر کام آسکے گی۔ برکس مغرب کے زیر تسلط عالمی اداروں کے جغرافیائی سیاسی متبادل کے طور پر اپنے تصور کردہ کردار میں اضافے کا باعث ہے جس کے اپنے ہی مقاصد ہیں۔
عالمی تنطیم برکس کے 5 بانی رکن ممالک بشمول برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کا مؤقف ہے کہ معاشی اور آبادی کے لحاظ سے ان کے حجم کو دنیا کے اداروں خصوصاً عالمی بینک اور آئی ایم ایف میں خاطر خواہ نمائندگی نہیں دی گئی جبکہ یہ ممالک دنیا کی آبادی کا 42 فیصد اور عالمی جی ڈی پی کا 23 فیصد سے زائد رکھتے ہیں۔
برکس میں وسعت سے اس عالمی تنظیم کو دنیا کی 46اعشاریہ 5فیصد آبادی کی نمائندگی مل جائے گی جو عالمی جی ڈی پی کا 30فیصد رکھتی ہویگ۔ 6 نئے اراکین کی مختلف نوعیت سے برکس کی اصل نوعیت پر نئے سوالات جنم لے رہے ہیں جیسا کہ جوہانسبرگ سربراہی اجلاس 2023 میں سامنے آئے۔ اجلاس کا مقصد مشترکہ دلچسپی کے مختلف امور بشمول تجارت، سرمایہ کاری، بنیادی انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، موسمیاتی تبدیلی، برکس ممالک کے مابین تعاون اور ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔
اجلاس کے دیگر مقاصد میں پائیدار ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنانسنگ، متعدی بیماریوں کیلئے ویکسین کی تخلیق، برکس ویکسین سینٹر، کا قیام شامل تھے۔ ان نتائج سے عالمی نظم ونسق اور برکس ممالک کے عزائم پر روشنی ڈالی گئی۔ برکس ممالک کے تنوع اور تحرک کی عکاسی بھی ہوئی جن کے انفرادی سیاسی نظام، اقتصادی ماڈلز، ثقافتی پس منظر اور اسٹرٹیجک مفادات الگ نوعیت کے حامل ہیں۔
اپنی رکنیت کو وسعت دے کر برکس ممالک ایک زیادہ متوازن، جامع اور کثیر جہتی دنیا بنانے کا عزم ظاہر کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ برکس تنظیم اپنے ارکان کا امریکا اور نیٹو کی مداخلت کے بغیر دفاع کیسے کرسکے گی؟اس برکس بلاک میں مزید 6 ممالک کی شمولیت سے بلاک کے تنوع، اثر و رسوخ اور صلاحیت میں اضافہ ہوا تاہم اس سے وہ چیلنجز اور خطرات بھی سامنے آئے جن کا سامنا برکس ممالک کو امریکا اور اس کے اتحادی ممالک سے ہوسکتا ہے کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادی ان ممالک کو اپنے مفادات کیلئے خطرہ سمجھ سکتے ہیں۔
دراصل امریکا اور نیٹو ممالک دیگر اقوام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں جس کی ایک طویل تاریخ ہے اور یہ مداخلت خاص طور پر ان خطوں میں کھل کر سامنے آئی جہاں ان کے اسٹرٹیجک یا اقتصادی مفادات ہیں۔ انہوں نے اپنے حریفوں یا مخالفین کی خودمختاری اور استحکام کو نقصان پہنچانے کیلئے اکثر پابندیوں، فوجی مداخلتوں، خفیہ کارروائیوں، پراپیگنڈے اور حکومت بدلنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں۔ مثلاً عراق پر امریکی قیادت میں حملہ ہوا جس سے قبل بہانہ یہ بنایا گیا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں تاہم یہ دعویٰ جھوٹا نکلا اور حملے کے نتیجے میں لاکھوں شہری ہلاک اور بے گھر ہو گئے۔
پھر 2011 میں لیبیا میں نیٹو کی قیادت میں مداخلت ہوئی جس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ ہم معمر قذافی کی حکومت سے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے لیبیا کے بنیادی انفراسٹرکچر، اداروں اور سماجی تانا بانا تباہ و برباد ہوگیا اور طاقت کا وہ خلا پیدا ہوا جس کا فائدہ ملیشیا اور دہشت گردوں کے علاوہ انسانی اسمگلرز نے بھی اٹھایا۔
بعد ازاں 2014 میں یوکرین میں امریکی حمایت یافتہ بغاوت ہوئی جس سے جمہوری طور پر منتخب صدر وکٹر یونوکووچ معزول ہو گئے اور مشرقی علاقوں میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔ وہاں روس نواز علیحدگی پسند نئی حکومت کے خلاف مزاحمت کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ امریکا اور نیٹو نے بھی روس کی سرحدوں تک نیٹو کی توسیع کیلئے کام کیا جس سے کریمیا پر فوجی تصادم اور دونوں جانب پابندیاں لگانے کی ضرورت پیش آگئی۔
ماضی میں 1979 سے ایران پر امریکی زیر قیادت پابندیاں جو ماضی قریب میں ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت شدت اختیار کرچکی ہیں جس سے واضح ہوا کہ امریکا کا مقصد ملک کی معیشت کو مفلوج کرنا اور اسے عالمی برادری سے الگ تھلگ کرنا ہے۔ امریکا 2015 کے جوہری معاہدے سے بھی دستبردار ہوگیا جس پر ایران اور 6عالمی طاقتیں بشمول چین اور روس دستخط کرچکے تھے۔ پھر زیادہ سے زیادہ پریشرائز کرنے کی مہم مسلط کی گئی جس سے جنگ اور حکومت کی تبدیلی کا خدشہ تھا۔
ایسی ہی کچھ مثال 2018 سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر امریکہ کی زیر قیادت پابندیاں لگائی گئیں جو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ردِ عمل میں لگائی گئیں۔ امریکا نے یمن میں سعودی قیادت کے تحت اتحاد کیلئے اپنی حمایت بھی کم کردی جو 2015 سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جنگی جرائم اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کیا۔
تمام تر مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا اور نیٹو نے بین الاقوامی قانون، کثیرالجہتی یا دوسرے ممالک سے تعلقات خراب ہونے جیسے نتائج کی پرواہ کیے بغیر اپنے مفادات کے حصول کے لیے اکثر یکطرفہ یا مشترکہ طور پر ایسی کارروائیاں کیں۔ وہ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ برکس کے کچھ نئے ارکان اس طرح کی مداخلت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوئے ہیں۔
لہٰذا برکس کے لیے ضروری ہے کہ وہ امریکی اور نیٹو کی مداخلت کے خلاف اپنے اراکین کا دفاع کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کرے۔ ایسی حکمت عملی خودمختاری کے احترام اور عدم مداخلت پر مبنی ہونی چاہیے۔ برکس کو خود مختاری کے احترام اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کو برقرار رکھنا چاہیے جیسا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج ہے۔ برکس کو بیرونی طاقتوں کی طرف سے اپنی مرضی یا اقدار کو دوسرے ممالک یا خطوں پر مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت بھی کرنی چاہیے، خاص طور پر جبر یا تشدد کے ذریعے ایسی کوششیں درست قرار نہیں دی جاسکتیں۔ برکس کو ان لوگوں کے حق خود ارادیت کی بھی حمایت کرنی چاہیے جو اپنی حکومتوں یا غیر ملکی افواج کے ہاتھوں مظلوم یا پسماندہ ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ برکس کو ممالک یا خطوں کے درمیان تنازعات حل کرنے کے ترجیحی ذرائع کے طور پر کثیرالجہتی کاوشوں اور مکالمے کو فروغ دینا چاہیے۔ برکس کو اپنی اجتماعی آواز اور اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے تنازعات کے ایسے پرامن حل کی وکالت کرنی چاہیے جو بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کا احترام کرے۔ برکس کو باہمی تعاون اور اعتماد کو فروغ دینے کیلئے دیگر علاقائی اور عالمی عوامل، جیسے کہ اقوام متحدہ، افریقی یونین، عرب لیگ، آسیان اور دیگر کے ساتھ بھی مشغول ہونا چاہیے۔
درحقیقت، برکس کو اپنے ایجنڈے کے اہم محرکات کے طور پر ترقی اور تعاون پر توجہ دینی چاہیے۔ برکس کو چاہیے کہ وہ اپنی اقتصادی صلاحیت اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اراکین اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو اپنے ترقیاتی اہداف کے حصول میں مدد فراہم کرے۔ برکس کو تجارت، سرمایہ کاری، بنیادی ڈھانچے، صحت، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی، موسمیاتی تبدیلی اور سلامتی جیسے مختلف شعبوں میں بھی اپنا تعاون بڑھانا چاہیے۔ برکس کو اپنے تجربات اور بہترین طریقوں کو دوسرے ممالک کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہیے جنہیں اسی طرح کے چیلنجز یا مواقع کا سامنا ہے۔
مختلف سیاسی نظاموں، اقتصادی ماڈلز، ثقافتی پس منظر اور اس کے اراکین کے اسٹریٹجک مفادات کا احترام کرتے ہوئے تنوع اور یکجہتی برکس کی بنیادی طاقت بن سکتی ہے۔ برکس کے رکن ممالک کو بھی بحران یا مشکل کے وقت ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔ برکس کو ثقافتی تبادلوں، عوام سے عوام کے رابطوں اور سول سوسائٹی کی شمولیت کے ذریعے اپنے لوگوں کے درمیان تعلق اور شناخت کے احساس کو بھی فروغ دینا چاہیے۔
ان اصولوں پر عمل کرتے ہوئے برکس اپنے اراکین کا امریکی جارحیت اور نیٹو کی مداخلت کے خلاف دفاع کر سکتا ہے اور ایک زیادہ متوازن، جامع اور کثیر قطبی عالمی نظام تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ برکس عالمی امن، استحکام اور خوشحالی میں بھی اپنا حصہ ڈال سکتا ہے جس سے تمام ممالک اور لوگوں کو فائدہ ہو۔