پاکستان پر الزام تراشی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

افغانستان میں شکست سے مایوس امریکی قانون ساز ایک بار پھر اپنی ناکامیوں پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اورامریکی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کے تحت افغان طالبان اور ان کے حامیوں پر پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی گئی ہے جس کا دائرہ ممکنہ طور پر پاکستان تک پھیل سکتا ہے۔

ریپبلکن سینیٹرز کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ بل ، امداد کا جائزہ لینے اور امدادمعطل کرنے اور طالبان کی حمایت کرنے والی کسی بھی حکومت پر پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بل پاکستان کو تنہا اور طالبان اور ان کی حمایت کرنے والوں کے خلاف تعزیراتی کارروائیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔یہ بل اس وقت سامنے آیا جب ایک اعلیٰ امریکی جنرل نے اعتراف کیا کہ امریکہ نے دو دہائیوں کے بعد افغانستان میں جنگ ہاری۔

امریکی کانگریس میں ایک پُرجوش گواہی کے دوران جنرل مارک ملی نے جنگ کو ایک اسٹریٹجک ناکامی قرار دیا تاہم جنرل مارک ملی نے شکست کا الزام پاکستان پر بھی لگانے کی کوشش کی ہے اور پاکستان پرطالبان پناہ گاہ کے طور پر کارروائی نہ کرنے پر بھی عائد کیا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اس بل کا مقصد امریکی صدر بائیڈن پر دباؤ بڑھانا ہے جنہیں صورتحال کے لیے بہت کم منظوری کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دشمن قوتیں نشانہ بنا رہی ہیں جو سارا بوجھ ان پر ڈالنا چاہتی ہیں۔ امریکی قانون ساز حیران ہیں کہ اس کی ٹیکنالوجی اور وسائل بیکار تھے اور افغان فوج طالبان کے سامنے گر شکست سے دوچار ہوگئے۔

شاہ محمود قریشی ابھی حال ہی میں امریکہ سے واپس آئے ہیں جہاں انہوں نے مسلسل طالبان حکومت کے ساتھ منسلک رہنے اور انسانی امداد فراہم کرنے پر زور دیا جبکہ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران پاکستان کا نقطہ نظر بھی پیش کیا اور خبردار کیا کہ افغانستان میں معاشی تباہی کا خدشہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بیانیے کو غیر ملکی رہنما قبول نہیں کر رہے جو طالبان کے انسانی حقوق کے وعدوں سے محتاط ہیں۔امریکہ کو طالبان کی فتح کی وجوہات کی چھان بین کرنی چاہیے کہ تنازع پر خرچ ہونے والے کھربوں کیسے بیکار رہے تاہم یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کو اپنی حماقتوں کے لیے قربانی کا بکرا بنانا انخلاء کے بعد مزید مشکلات کا سبب بنے گا۔

امریکہ سمجھتا ہے کہ جنگ ختم ہوچکی ہے لیکن اسے افغانستان میں نئی حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کیونکہ وہاں معزول حکومت نازک تھی اور اس کا خاتمہ ہونا ہی تھا۔پاکستان کو امریکہ کے ساتھ حالات اور مستقبل کے تعلقات کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔

یہ ضروری ہے کہ حکومت پارلیمنٹ میں اس معاملے پر بحث کرے اور خارجہ پالیسی کے معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرے۔بدلتا ہوا وقت نئی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے اور پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی قربانیوں کو تسلیم نہ کیے جانے کے بعد اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔

Related Posts