حکومت کا ڈینگی پر قابو پانے کے آسٹریلین ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا فیصلہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Dengue-Again
Dengue-Again

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد:حکومت نے 2020 میں ڈینگی کے مزید مہلک ہونے کے خدشے کے پیش نظر اس پر قابو پانے کے لیے آسٹریلیا سے نئی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

میڈیارپورٹ کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے کہ فروری 2020 سے ہی حفاظتی اقدامات شروع کیے جائیں گے تاکہ ڈینگی مچھر کا لاروا پھیل نہ سکے۔واضح رہے کہ رواں سال 53 ہزار 805 ڈینگی کے کیسز سامنے آئے جن میں سے 95 افراد کی اموات ریکارڈ کی گئیں۔

دستاویزات کے مطابق اسلام آباد سے 13 ہزار 292 کیسز رپورٹ کیے گئے، اس کے علاوہ دیگر مقامات میں سندھ سے 16 ہزار 657، پنجاب سے 10 ہزار 118، خیبرپختونخوا سے 7 ہزار 876، بلوچستان سے 3 ہزار 474 جبکہ آزاد جموں کشمیر سے ایک ہزار 690 اور 696 کیسز دیگرکٹیگری کے شامل تھے۔

کچھ کیسز میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مچھر نے کس صوبے میں مریض کو کاٹا تھا، لہٰذا ایسے کیسز کو ‘دیگر’ کی کٹیگری میں رکھا گیا۔ڈینگی کے باعث صوبہ سندھ میں 46 افراد، اسلام آباد میں 22، پنجاب میں 23، بلوچستان میں 3 اور آزاد کشمیر میں ایک شخص جاں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں لاکھوں والدین کا اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے انکار

اس حوالے سے قومی ادارہ برائے صحت (این آئی ایچ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر میجر جنرل ڈاکٹر عامر اکرم نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ رواں سال کے کیسز اور اموات پر غور کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ پیش گوئی کرنے والے اس ماڈل پر توجہ دی جائے گی جس کا استعمال یہ معلوم کرنے کے لیے ہوتا ہے کہ آئندہ برس کیا صورتحال رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پیش گوئی کرنے والے ماڈل پر تربیت کے لیے ٹیمیں برطانیہ روانہ کی تھیں اور اب ہمیں یقین ہے کہ اگر تمام صوبائی حکومتیں بروقت اقدامات کریں تو ڈینگی پر قابو پایاجاسکتا ہے۔

ان کامزیدکہناتھا کہ ہم نے ڈینگی پرقابو پانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر تربیت حاصل کرنے کے لیے ٹیموں کو آسٹریلیا بھی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، مارچ 2020 میں ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیےجائیں گے کیونکہ آسٹریلیا نے بھی ٹیکنالوجی کی منتقلی پر اتفاق کیا تھا۔

ڈاکٹر عامر اکرم کے مطابق آسٹریلیا نے ایک ‘وولباچیا’ نامی ایک جراثیم (بیکٹریا) تیار کیا تھا جسے مچھر میں منتقل کیا جاتا ہے، ایک مرتبہ وولباچیا مچھر کے اندر منتقل ہوجاتا ہے تو وہ نسل در نسل اس کے ڈی این اے میں رہتا ہے اور وہ اسے ڈینگی کو انسانوں میں منتقل نہیں کرنے دیتا۔

Related Posts