یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دانا کہتے ہیں کہ وقت کبھی کسی کے ہاتھ میں نہیں ہوتا، وقت کا کام بدلنا ہے اور یہ بدل کر رہتا ہے۔ زندگی کا اصول ہے کہ کوئی بھی چیز ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، وقت کے ساتھ عروج اور زوال آتے ہیں۔ انسان کو وقت کے ساتھ خود کو ڈھالنا ہوتا ہے اور جو اپنی “میں” کے خول میں بند رہتے ہیں وقت ان کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا ہے۔

ایسا ہی کچھ چیئرمین تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی ہوا۔ خدا نے انہیں زندگی میں بیشمار مواقع دیئے اور انہوں نے ان سے فائدہ بھی اٹھایا لیکن افسوس کہ عمران خان اپنی ذات کے خول میں ایسا قید ہوئے کہ ذمہ داریاں ملنے پر بردباری کا مظاہرے کرنے کے بجائے غرور اور تکبر کے ایسے اسیر بنے کہ وزیر اعظم کے منصب پر پہنچ کر بھی ان کی ذات میں ٹھہراؤ، سنجیدگی اور متانت نام کو بھی نہیں آئی۔

90ء کی دہائی سے سیاست کے میدان کی خاک چھانتے عمران خان نے 2014 میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے طویل ترین دھرنا دیا اور روز کنٹینر پر چڑھ کر مخالفین کیلئے نازیبا زبان استعمال کرتے اور امپائر کے اشارے کا انتظار کرتے لیکن اس اشارے نے ان کی 2018 کے انتخابات سے پہلے مدد نہیں کی۔

وہ تو بھلا ہو امپائر کی انگلی کا جس نے عمران خان کو اقتدار دیکر ہمارے توہمات کو ختم کردیا کہ اگر عمران خان کو موقع مل جائے تو وہ نظام بدل سکتا ہے لیکن افسوس عمران خان اس پورے عرصے میں صرف مخالفین پر محلے کی ماسی کی طرح طعنے اور پھبتیاں کسنے کے علاوہ کوئی کام نہ کرسکے۔

اقتدار ملنے سے پہلے عمران خان کا دعویٰ تھا کہ کپتان ٹھیک ہو تو نیچے سب ٹھیک ہوجاتا ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کے مطابق ٹیم ٹھیک نہیں تو کبھی عوام۔ ہاں صرف کپتان ٹھیک ہے۔ وہ کپتان جس نے ماضی کے منصوبوں پر اپنی تختیاں لگانے کے علاوہ کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں بنایا۔ ہاں مگر قرضوں کے انبار میں پاکستان کو ایسا جھونکا کہ آنیوالی کئی نسلوں تک اس خوفناک دور حکومت کے اثرات بھگتنا ہونگے۔

عدم اعتماد کے بعد بعض لوگ اب بھی عمران خان کی حمایت کرتے ہیں کہ ماضی کے آزمائے ہوئے لوگوں کو اقتدار دینے سے بہتر ہے کہ عمران خان کو ہی موقع دیا جائے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً چار سال میں ملک کو پستیوں میں دھکیلنے کے علاوہ عمران خان نے ایسا کونسا کام کیا ہے جو ان کو مزید تباہی کا موقع دے دیا جائے ؟

غیر جانبدار امپائر، اصولوں اور بہادری کے دعووں کے برعکس عمران خان اقتدار کیلئے کبھی امپائر کو چیخ چیخ کر پکارتے رہے کبھی تمام اصول ضابطے بھول کر بدترین مخالفوں کے در پر ماتھا ٹیکتے رہے۔ حکومت بچانے کیلئے کبھی 5 تو کبھی 7 سیٹوں والی پارٹیوں کو سب کچھ دینے پر تیار نظر آئے لیکن اب پچھتاوے کیا ہوت۔

گزشتہ شام عمران خان نے ایک بار پھر قوم سے خطاب کیا جس میں ایک خوفناک سازش کا انکشاف ہوا گوکہ وہ سازش بھرا خط پاکستان کے اپنے سفیر نے لکھا جس میں امریکا نے 7 مارچ کو دھمکی دی۔ ہمارے وزیرخارجہ چند روز بعد اسی امریکا کے نمائندگان سے ملاقاتوں پر خوشی سے جھوم رہے تھے۔

سنجیدہ حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ محض فیس سیونگ اور اگلے الیکشن میں عوام کو بیچنے کیلئے نیا چورن تیار کیا گیا ہے اور یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس پریم پتر کے اجزائے ترکیبی تیار کرنے میں شاہ محمود قریشی پیش پیش ہیں۔

واقفان حال بتاتے ہیں کہ عمران خان کاعزم وحوصلہ چٹان کی مانند ہے اور آج اگر وہ گھٹنوں کے بل گرے ہیں تو اس میں کسی اور کا کوئی کمال نہیں۔ عمران خان کو خود ان کے اپنے وزن نے گرایا ہے۔

ماضی میں اقتدار کے لالچ میں عمران خان نے پرویز مشرف، نوازشریف، آصف زرداری حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمان کا کندھا تک استعمال کیا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کا لب و لہجہ انتہائی افسوسناک تھا۔ ایک ملک کے وزیراعظم ہونے کے باوجود وہ پوری دنیا کے سامنے مخالفین پر پھبتیاں کستے رہے اور اپوزیشن کا مذاق اڑاتے رہے۔

عمران خان کو شائد یہ زعم تھا کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے اور بطور وزیراعظم وہ چاہے کسی کا بھی مذاق اڑائیں، دوسروں کے منصوبوں پر تختیاں لگائیں یا جھوٹے دعوؤں کے انبارلگائیں انہیں معافی ہے، تو ایسا نہیں ہے جناب ! سیاست کے اس کھیت میں اپنا بویا خود کاٹنا پڑتا ہے، چاہے آپ اقتدار میں انگلی کی مدد سے آئیں یا عوام کے انگوٹھے سے، آپ کو اپنا حساب دینا پڑتا ہے۔

بالفرضِ محال یہ مان بھی لیا جائے کہ عمران خان کی نیت صاف ہے لیکن محض نیتوں سے ملک نہیں چلا کرتے۔ مملکت کا نظام چلانے کیلئے ویژن، تجربہ اور سمجھ بوجھ ہونا ضروری ہے جو چار سالہ دور اقتدار میں کہیں نظر نہیں آئی۔ عمران خان کا پورا زور مخالفین کو کچل کراپنے اقتدار کو دوام بخشنے تک محدود نظر آیا۔

اب انہیں ایک خط کا آسرا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک مذاق بنتا جارہا ہے۔ عمران خان کے پاس عزت بچانے کا ایک ہی راستہ تھا اور شاید وہ راستہ انہیں سیاستدان سے لیڈر بنا دیتا کہ عدم اعتماد آنے کے بعد آپ استعفیٰ دیکر عوام کی عدالت میں پیش ہوتے اور انہیں اگلی بار اکثریت دینے کا کہتے لیکن آپ نے اقتدار کیلئے تمام اصول اور ضابطے تیاگ کراپنا اقتدار بچانے کیلئے وہ کام کئےجنہیں قابل تعریف نہیں کہا جاسکتا۔

اپنے ساتھیوں کو پلٹ کر نہ دیکھنے والے عمران خان نے محض اقتدار کیلئے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو وسیم اکرم پلس اور پاکستان کے سب سے قابل وزیراعلیٰ کی قربانی دیکر اپنا وزیر اعلیٰ کا امید وار نامزد کیا جن کیلئے چند روز قبل شیخ رشید، پرویز خٹک اور دوسرے وزراء 5 سیٹوں کے طعنے کس رہے تھے۔

عمران خان کو اقتدار بچانے کیلئے کبھی “باپ” کی منتیں کرنا پڑیں کبھی نفیس لوگوں کے ترلے ڈالے لیکن مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔

اقتدار آنے جانے والی چیز ہے لیکن عمران خان کو شاید ایسا لگتا ہے کہ پتا نہیں اگلی بار انہیں انگلی ملے یا نہ ملے، اس لئے جب تک ہوسکتا ہے اقتدار سے چمٹے رہو اور شومئی قسمت کہ عمران خان نے اقتدار کیلئے پی ٹی آئی کی بنیاد رکھنے والے ساتھیوں کو چھوڑ کر ماضی میں کئی پارٹیاں تبدیل کرنے والوں کو اپنے دائیں بائیں بٹھالیا جن کے مشوروں نے عمران خان کی رہی سہی سوجھ بوجھ پر بھی پردہ ڈال دیا۔

عمران خان کا ممکنہ طور پر بطور وزیراعظم آخری اسٹنٹ اسلام آباد کا جلسہ تھا جس کیلئے پورے ملک میں ایک ہیجان برپا کیا گیا اور ہر طرح کے سرکاری وسائل جھونک کر اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں مبینہ طور پر چند ہزار کرسیاں لگا کر لاکھوں لوگوں کو ان پر بٹھایا گیا۔ تاریخی سرکاری جلسہ کیا گیا جو اپنی نوعیت کا دلچسپ واقعہ ہے کہ حکومت وقت اپوزیشن کے خلاف جلسے کررہی ہے۔

یہ آپ کو یاد نہیں رہا کہ حکومتیں کارکردگی دکھاتی ہیں، مجمع نہیں اور اگر بات مجمع لگانے کی ہے تو یقین جانیں آج پنجاب میں نرگس اور دیگر اسٹیج فنکاروں کے رقص کا اعلان کردیں تو اس سے زیادہ لوگ جمع ہوجائینگے اور اس کیلئے آپ کو سرکاری وسائل استعمال نہیں کرنا پڑیں گے بلکہ عوام خود آجائینگے۔

انگلی والوں کا بھی شکریہ کہ اگر آپ عمران خان کو انگلی نہ دیتے تو شاید پاکستان کے عوام کو یہی غلطی فہمی رہتی کہ ایک بار عمران خان کو موقع ملتا تو پاکستان کی قسمت بدل جاتی۔ کہنے کو بھی بہت کچھ ہے اور لکھنے کو بھی لیکن ایک ہارے ہوئے انسان پر لکھنے کو جی مائل نہیں۔ بس اس شعر سے تحریر کا اختتام کرونگا  ‘

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا؟

یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں؟

Related Posts