پاکستان بھر سے پٹرول گدھے کے سرسے سینگ کی طرح غائب ہوگیا ہے، وزیرِ اعظم عمران خان کی سربراہی میں تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت نے مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا اعلان کردیا۔
یہ پاکستانی شہریوں کے ساتھ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے، ذرا یاد کیجئے کہ گندم اور آٹے کا بحران کس نے پیدا کیا تھا؟ ذخیرہ اندوز غریب دکاندار نہیں بلکہ پٹرول پمپس سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک بیٹھا ہوا ذخیرہ اندوز مافیا ہے۔ اگر حکومت ان کا کچھ نہ کرسکی تو پٹرول سستا کرنے کے تمام تر اقدامات فضول ثابت ہوں گے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ پٹرول کا بحران کیسے پیدا ہوا؟ مصنوعی قلت کے ذمہ دار کون لوگ ہیں؟ شہری ایک پٹرول پمپ سے دوسرے پٹرول پمپ تک پٹرول کیلئے لائنوں میں لگ کر پریشان ہو رہے ہیں۔ پٹرول کی من مانی قیمتیں وصول کی جارہی ہیں۔ حکومت نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف اب تک کیا ایکشن لیا؟ اور آگے کیا کیا جاسکتا ہے؟
طلب اور رسد کے اصول کا منفی استعمال
سب سے پہلے طلب اور رسد کے اصول کو سمجھنا ضروری ہے۔ جو چیز مہنگی ہو، اس کی فراہمی زیادہ کرنے سے مہنگائی کم ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں کا گرنا ہے۔ وہاں روس اور سعودی عرب کی لڑائی ہوئی۔ سعودی عرب نے کہا کہ پٹرول سستا ہوگیا ہے، فراہمی کم کردو، قیمت مناسب ہوجائے گی۔
سعودی عرب کے مقابلے میں روس تیل کی برآمدات پر اتنا زیادہ انحصار نہیں کرتا۔ بے شک پٹرولیم مصنوعات روس کی اہم برآمدات گردانی جاتی ہیں، تاہم روس دیگر مختلف اشیاء مثلاً دفاعی سازوسامان برآمد کرکے اپنا کام چلا سکتا ہے جبکہ سعودی عرب کا زیادہ تر انحصار تیل پر ہوتا ہے۔ اس لیے روس یہ بات نہیں مانا اور اس نے سپلائی بند نہیں کی۔
اس پر سعودی عرب کی حکومت غصے میں آگئی، انہوں نے تیل کی فراہمی مزید بڑھا دی جس سے تیل ایک دم صفر پر آگیا بلکہ بعض جگہ تو قیمتیں منفی میں بھی دکھائی دینے لگیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ رسد اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ طلب صفر سے بھی نیچے جا چکی ہے۔ پاکستان میں آج پٹرول کی جو صورتحال ہم دیکھ رہے ہیں، وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
یہاں طلب اور رسد کے اصول کا منفی استعمال کیا گیا۔ حکومت نے تیل کی قیمتیں کم کردیں اور پٹرول کی خریدوفروخت سے ناجائز منافع کمانے والی بڑی بڑی مچھلیوں کو معلوم تھا کہ پاکستانی عوام زیادہ رقم ادا کرکے بھی پٹرول خریدتے رہے ہیں، اگر آئندہ بھی یہ قیمتیں جوں کی توں رہیں تو کوئی طوفان نہیں آئے گا۔ لوگ برداشت کرسکتے ہیں۔
پٹرول کی فراہمی اچانک صفر کردی گئی۔ شہری پٹرول ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور پٹرول غائب، جس کے بعد پٹرول بلیک میں بیچا گیا اور عوام نے من مانی قیمتوں پر خرید کر اپنا کام چلایا۔سوال یہ ہے کہ پٹرول مافیا کو عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹنے کا اختیار کس نے دیا؟
پٹرول کی قیمتوں میں کمی اور بحران
ملک بھر میں کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے لاک ڈاؤن جاری تھا اور اسی دوران حکومت وقتاً فوقتاً پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی کم کرتی رہی۔ معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گِل کے مطابق وزیرِ اعظم نے لاک ڈاؤن کے دوران پٹرولیم کی قیمتوں میں 56 روپے 89 پیسے فی لٹر تک کمی کی۔سیف اللہ نیازی کے مطابق ہمارے ہاں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں آدھی رہ گئی۔
گزشتہ دو ماہ یعنی اپریل اور مئی کے دوران پٹرول کی قیمت میں 37 روپے فی لٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل 42 روپے فی لٹر ، مٹی کا تیل 57 جبکہ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 39 روپے فی لٹر کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد مافیا حرکت میں آگیا اور مصنوعی قلت پیدا کرکے بحران لایا گیا۔
پٹرول بحران کا ذمہ دار کون؟
حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی کم قیمتوں کے اعلان کے بعد مارکیٹنگ کمپنیوں نے ملی بھگت سے مارکیٹ سے پٹرول غائب کردیا جس کا آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے نوٹس لے لیا ہے۔
کراچی میں قائم تقریباً 300 پٹرول پمپس میں سے 150 کے قریب پمپس نے 4 جون کو شہریوں کو پٹرول دینے سے انکار کردیا جبکہ گزشتہ روز تک یہ تعداد 200 کے قریب پہنچ گئی۔ کراچی کے شہری جس بھی پٹرول پمپ کا رخ کر رہے تھے، انہیں وہاں سے صاف جواب دے دیا جاتا تھا کہ ہمارے پاس پٹرول نہیں ہے۔
جب شہری پوچھتے کہ پٹرول کیوں نہیں ہے؟ تو جواب ملتا کہ ہمیں اوپر سے پٹرول نہیں دیا جارہا، یعنی سپلائی ہی نہیں کیا جارہا تو ہم بیچیں کہاں سے؟ ہمارے پاس پٹرول نام کی کوئی چیز نہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن اکا دکا پٹرول پمپس پر تیل دستیاب ہوا، وہاں شہریوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ لوگ پٹرول کیلئے طویل انتظار پر مجبور ہو گئے اورکراچی سمیت مختلف شہروں میں من مانی قیمتوں کی ادائیگی بھی کی گئی۔
اسلام آباد میں پٹرول کی قلت سے غیر قانونی ایجنسیاں پروان چڑھنے لگیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ناجائز اور غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنا ہوتا ہے لیکن پولیس کے ذمہ دار مبینہ طورپر خود غیر قانونی پٹرول ایجنسیوں کے مالک بن بیٹھے۔
حکومت کا ایکشن
رواں ماہ پٹرول پمپس پر پٹرول نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ آج اوگرا نے 22 تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو ایچ ڈی آئی پی کے ماہرین کے ساتھ مل کر آئل ڈپوز اور پٹرول پمپس پر پٹرول کی دستیابی پر تفتیش کریں گی۔
ترجمان اوگرا نے اعلان کیا کہ جو پٹرول پمپس پر پٹرول کی کمی کے ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے گی، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کو عوام کے مسائل کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہے اور وہ چاہتی ہے کہ عوام کو مشکلات سے باہر نکالا جائے۔
تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
سب سے پہلے آٹے اور چینی کے بحران کو اپنے سامنے رکھئے اور پھر یہ سوال پوچھئے کہ پہلے کیا ہوا تھا اور اب کیا ہوگا؟ سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو آٹے اور چینی کا بحران کس نے پیدا کیا؟ یہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔ چینی کے بحران کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سب جانتے ہیں، کیا انہیں کوئی سزا ملی؟
پاکستان تحریکِ انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر خان ترین ، چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے والی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور چینی کے بحران کے دیگر ذمہ داروں کو آج تک سزا نہیں دی جاسکی اور پٹرول بحران پر تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہیں۔
آج ہمارا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پٹرول بحران کے ذمہ داران کا پتہ چلانے کے بعد کیا انہیں بھی کوئی سزا دی جائے گی؟ سزا دی جائے یا نہ دی جائے، عوام کو ذخیرہ اندوزی سے نجات دلانے کیلئے حکومت کو ایک واضح لائحۂ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس کا ہر سطح پر فقدان نظر آتا ہے۔
لائحۂ عمل کیا ہونا چاہئے؟
حکومت کو چاہئے کہ طلب اور رسد کے اصولوں کو منفی طور پر ریاست اور عوام الناس کے خلاف استعمال کرنے والوں کی بیخ کنی کیلئے سخت اقدامات عمل میں لائے جس کیلئے اسلام کا عدل و انصاف کا اصول مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
ایک خاتون پر چوری کا الزام ثابت ہوگیا۔ وہ بڑے خاندان اور معزز گھرانے سے تھی۔لوگوں نے سفارش کی کہ حضور ﷺ، اسے چھوڑ دیجئے یا سزا کم کردیجئے۔ یہاں اسلام کا سب سے بڑا اصول ہمیں نبئ آخر الزمان ﷺ کی سیرت سے ملتا ہے جو فرماتے ہیں کہ اگر میری بیٹی (فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا) بھی اگر چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔
پھر فرمایا: تم سے پہلی قومیں اِسی لیے ہلاک ہوئیں کہ اگر کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے تو سزا دی جاتی اور اگر کوئی طاقتور جرم کرتا ہوا پایا جاتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا۔
دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا ہمیں دینِ اسلام سے حل نہ ملتا ہو، ذخیرہ اندوزوں کو جب تک سخت سزائیں نہیں ملیں گی، مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو چاہئے کہ عوام کو ان کا حق دینے کیلئے ہر ممکن اقدامات عمل میں لائے۔