افغانستان میں برسوں سے جاری تباہی، قتل و غارت گری، خونریزی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، افغان انٹرا مذاکرا ت کا بھی اس صورتحال پر کوئی اثر نہیں پڑا اور صورتحال جوں کی توں ہے، ایک امید پیدا ہوئی تھی کہ افغان انٹرا مذاکرات کے دوران صورتحال بہتر ہوجائے گی، مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا، حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ طالبان اور افغان سیکورٹی فورسز ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
آج بھی افغانستان میں سیکورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں میں 35طالبان کے ہلاک اور 17کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جبکہ اس دوران افغان سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں کی اطلاعات بھی ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی یہی خواہش ہے کہ وہ اپنی فوج کو افغانستان سے واپس بلالیں۔ مگراس گمبھیر صورتحال کے دوران امریکی فوج کی واپسی سے صورتحال مزید بگڑنے کے خدشات ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ جب تک افغانوں کوامن وسکون نصیب نہیں ہوگاپاکستان بھی حقیقی امن حاصل نہیں کرسکتا، وزیراعظم عمران کے مطابق افغانستان سے غیرملکی افواج کاعجلت میں انخلاغیردانش مندانہ ہوگا۔وزیر اعظم کے مطابق دوحہ مذاکرات کے نتیجے میں افغان جنگ خاتمے کے قریب ہے،بین الافغان مذاکرات کا دور مزید مشکل ہوسکتا ہے جس کیلئے تحمل اور مفاہمت کی فضا درکار ہے۔
وزیراعظم عمران کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے2018 میں افغانستان میں سیاسی حل کیلئے پاکستان کی مدد مانگی، پاکستان افغانستان میں سیاسی حل کے لیے ہرممکن مدد کر رہا ہے۔ افغانستان میں امن کاجو راستہ پاکستان نے اختیارکیا وہ آسان نہیں تھا، پاکستان کئی دہائیوں سے 40 لاکھ افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کررہاہے، وزیر اعظم عمران خان نے امید ظاہر کی کہ افغانستان میں امن ممکن ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ سے افغانستان میں امن کے لئے بھرپور کردار ادا کیا ہے اور اس حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، مگر اب افغانستان کی حکومت اور طالبان کو چاہئے کہ افغانستان کے عوام کی خاطر امن عمل کو آگے بڑھائیں، تاکہ خوشحال کا ماحول بن سکے اور افغانستان کے معصوم شہری سکون کی فضاء میں سکھ کا سانس لے سکیں۔