ریاض : سعودی عرب کی زیر سرپرستی ادارہ رابطہ عالم اسلامی کے تحت افغانستان میں امن کے لئے کانفرنس منعقد کی گئی جس میں کوروناکی وجہ سے پاکستان و افغانستان کے اکثر علمائے کرام نے آن لائن شرکت کی جبکہ پاکستان سے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر پیر نور الحق قادری، سعودیہ میں پاکستان کے سفیر جنرل (ر)بلال اکبراوراسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز مکۃ المکرمہ کانفرنس میں شریک رہے ۔
افغانستان سے اس کانفرنس میں افغان حکومت کے مندوبین بھی شریک ہوئے جبکہ پاکستان سے اس کانفرنس میں دارالعلوم کراچی کے نائب صدر مفتی تقی عثمانی ویڈیو لنک کے ذریعے اور دیگر علمائے کرام، دفتر خارجہ میں مشیر وزیراعظم برائے مشرق وسطیٰ طاہر اشرفی، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکریٹری مولانا حنیف جالندھری ،جامعہ نعیمیہ لاہور سے مفتی راغب نعیمی ، مجمع العلوم السلامیہ پاکستان کے بانی مفتی عبدالرحیم ، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی راغب نعیمی،مولانا حامد الحق حقانی، مولانا فضل الرحمن خلیل ، جمعیت اہلحدیث کے رہنما علامہ ساجد میر، اہل تشیع کے نمائندے افتخار نقوی سمیت دیگر علمائے کرام نے آن لائن کانفرنس میں شرکت کی۔
مکۃ المکرمہ میں منعقدہ افغانستان امن کانفرنس کے کل 4سیشن منعقد کئے گئے جس میں پہلے سیشن کی صدارت رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالکریم العیسیٰ، دوسرے سیشن کی صدارت وزیر مذہبی امور پاکستان پیر نور الحق قادری، تیسرے سیشن کی صدارت افغانستان کے وزیر مذہبی امور محمد قاسم حلیمی اور چوتھے سیشن کی صدارت چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی نے کی۔
اس کانفرنس میں سعودی وزیر مذہبی امور اوررابطہ عالم اسلامی کی جانب سے علمائے کرام کو بتایا گیا کہ سعودی خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سہ ملکی علمائے کرام کو افغانستان میں متحارب گروپوں کے درمیان حمایت کیلئے جمع کیا ہے ، اس یقین کے ساتھ افغانستان میں قیام امن کا واحدحل قرآن کریم اور تعلیمات نبویہ صلی اللہ علیہ وآلیہ کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔معلوم رہے کہ اس کانفرنس میں سعودی عرب نے افغانستان کے حوالے سے اپنا بیانیہ دیا ہے ، جس کی پاکستان علمائے کرام سے توثیق لی گئی ہے ، جس میں افغانستان کے حکومتی وزرا کو شامل کرکے انہیں امن کی دعوت دی گئی تھی ۔
اس کانفرنس کے بعدسہ ملکی علمائے کرام کی تقاریر و آرا کے بعد 14نکاتِ امن برائے افغانستان جاری کئے ہیں ، جن پر رابطہ عالم اسلامی کے تحت وزیر مذہبی امو ر افغانستان محمد قاسم حلیمی اور وزیر مذہبی امور پاکستان ڈاکٹر نور الحق قادری نے دستخط کئے ہیں ۔
ان نکات کے مطابق اسلام امن کا درس دیتا ہے ، قیام امن کا حصول واجب ہے ، دومتحارب مسلمان گروپوں کے درمیان صلح کی کوشش لازمی کرنی چاہئے ، اسلام نے مفاہمت کی کوششوں کے دوران لوگوں میں صلح کے ارادے سے خلاف واقعہ بات کہنے کی اجازت دی ہے ، اسلامی دنیا کے کسی ایک حصے کی بدامنی پورے عالم اسلام کے لئے باعث تکلیف ہے ۔انسانی عزت و آبرو کا تحفظ اور انسانی جان کا تحفظ اسلام کا بنیادی اصول ہے ۔علمائے کرام کو دیگر منابرسے بھی اسلام اور امن کے حقیقی پیغام ، جو انسانی جان اور انسانیت کے احترام، انصاف اورامن کی تعلیم اور امتیازی سلوک سے روکتی ہے ۔
علمائے کرام افغانستان میں امن کے لئے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ، اس لئے پاکستان اور افغانستان کے علمائے کرام عملی طور پر امن کی بحالی کے اس سلسلے کوآگے بڑھانے کے لئے علمائے کرام پرمبنی ایک مشترکہ باڈی تشکیل دیتے ہیں ،افغانستان میں امن کے کردار کے لئے پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے ، جیسا کہ پیغام پاکستان ِ ، بوگور علامیہ ، افغانستان میں جاری شدہ صلح سے متعلق فتویٰ ، مکہ اعلامیہ اورافغانستان میں امن کے لئے دیگر کردار کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
کانفرنس اس امر کا اعادہ کرتی ہے کہ تشدد کو کسی مذہب ، تہذیب ، قوم اور نسل سے جوڑنا درست نہیں ہے لہٰذا شہریوں پر خود کش حملے یہ بنیادی اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں ۔اعلامیہ کے مطابق اہم افغانستان میں امن کے لئےکوششوں کو کامیاب بنانے کے لئے کسی بھی فریق کی توہین ، الزام تراشی ، یا کسی فریق کے احترام میں کمی کیئے بغیر اس تنازعہ کے فریقین کو زیادہ سے زیادہ برداشت ، مزید خون ریزی سے بچنے اور اشتعال انگیز کارروائیوں سے گریز اور براہ راست مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں ۔
ہم افغانستان کے امن کی حمایت کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ علمائےکرام مشترکہ طور پرکردار ادا کریں گے ۔اعلامیہ کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ ہم پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں اور امت مسلمہ کی یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے سعودی عرب کی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں ۔
ادھر پاکستان میں مبصرین کا خیال ہے کہ پیغام افغانستان کانفرنس میں طالبان کا کوئی سرکردہ رہنما شریک نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ان کے کسی نمائندے کی جانب سے اس امن معاہدے میں دستخط ہیں۔
کانفرنس میں شریک علمائے کرام یا انتظامیہ میں سے سامنے آنے والے معاہدے میں وزیر مذہبی افغانستان اور وزیر مذہبی امور پاکستان کے ہی دستخط ہیں ۔