معیشت کے حقیقی مسائل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سانپ گزر جائے تو اس کے بعد لکیر پیٹنا فضول سمجھا جاتا ہے، تاہم ملکی معیشت کی تباہی و بربادی کے بعد اس کے ذمہ داروں کا تعین انتہائی اہم فریضہ قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ معیشت کی تباہی کے ذمہ داروں کو آج تک کوئی سزا نہیں دے سکا۔

ایک سمت سے سیاستدانوں کا ایک ٹولہ اٹھتا ہے اور دوسری سمت کے سیاستدانوں اور ان کی جماعتوں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے کہ تمہارے دور میں معیشت کا بیڑہ غرق ہوگیا۔ ہم جو حکومت کر رہے ہیں، وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔

توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب بھی معیشت پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کا ذمہ دار حکومت کو سمجھا جاتا ہے جو درست بھی ہے، کیونکہ اپوزیشن کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا۔ وہ صرف حکومتِ وقت پر تنقید کا فریضہ ہی نبھا سکتی ہے۔

آج سے 2 روز قبل وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو معیشت کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہیں معیشت پر مناظرے کا چیلنج دے دیا جس کا جواب سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے یہ دیا کہ آپ مجھ سے مناظرہ کر لیں۔ شہباز شریف عمران خان سے بحث کا چیلنج قبول کریں۔

ایک طرف مناظرہ ہے تو دوسری جانب  چیلنج اور تیسری جانب عوام ہونقوں کی طرح اپنے ہی ملک کو سیاست دانوں کے ہاتھوں برباد ہوتے دیکھ رہے ہیں اور کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے مناظرے یا چیلنج قبول کرلینے سے کیا ملکی معیشت درست ہوجائے گی؟

ملکی معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنے کیلئے تجارتی خسارے، زرِ مبادلہ ذخائر، ڈالر کی قیمت اور ہر روز مہنگی ہوتی ہوئی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگی۔

ایک طرف ملک بھر میں سونے کی قیمت فی تولہ 2 لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر گئی، درآمدات کی ایل سیز نہ کھلنے سے تاجروں کو کروڑوں اربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری جانب معاشی ترقی کے دعوے اور تباہی کے طعنے دئیے جارہے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سالمیت کیلئے معاشی ماہرین سر جوڑ کر بیٹھیں اور حکومت کو وہ تجاویز دیں جن کی مدد سے پاکستان جیسا زرعی و معدنی ذخائر اور انسانی صلاحیتوں سے مالامال ملک اربوں ڈالرز ماہانہ کی بنیاد پر حاصل کرسکتا ہے۔

ماہرینِ معاشیات کو سمجھنا ہوگا کہ ملک کے حقیقی چیلنجز کیا ہیں اور ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے پاکستان کو ایسے کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں جن کی مدد سے ملک دیوالیہ ہونے کے خدشات سے باہر نکل سکے۔

بلاشبہ سیاسی انتشار معاشی تباہی کے بنیادی اسباب میں سے ایک ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ عمران خان برسر اقتدار ہو تو پی ڈی ایم اور اگر پی ڈی ایم حکومت کرے تو پی ٹی آئی احتجاج کا راستہ اختیار کر لیتی ہے۔

تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت تبدیل کرنے سے قبل ملکی معیشت اتنی زیادہ تباہ و برباد کبھی نہیں تھی جتنی کہ آج ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ہر گزرتے روز کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہیں جس پر حکومت نواز میڈیا خاموش نظر آتا ہے۔

بہتر ہے کہ میڈیا بھی اپنے فرائض پر توجہ دے اور عوام کی ضروریات کا احساس کرتے ہوئے معاشی مسائل کے حل کی راہیں حکومتِ وقت کے سامنے رکھے تاکہ جلد سے جلد غریب انسان کے گلے کا پھندا بنے معاشی مسائل کو حل کرکے اسے زندگی کی طرف واپس لایا جاسکے۔