Friday, March 29, 2024

راحیلہ رحیم کے ساتھ تیزاب گردی کا تشویشناک واقعہ اور ہماری ذمہ داریاں

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی کی رہائشی راحیلہ رحیم کے ساتھ 17 جولائی 2015ء کو تیزاب گردی کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ تیزاب گردی ہمارے معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں، لیکن یہ کوئی ایسی چیز بھی نہیں جسے آسانی سے بھلایا جاسکے۔

زیادہ تر خواتین کو منگنی نہ ہونے، ذاتی دشمنی یا دیگر مختلف اسباب کے باعث تیزاب گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آج ہم اس حوالے سے راحیلہ رحیم کی مثال سامنے رکھتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں کہ معاشرے کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔

راحیلہ رحیم کا واقعہ:

راحیلہ رحیم 18 سالہ میٹرک کی طالبہ تھی جس کے ساتھ ساڑھے 4 سال قبل تیزاب گردی کا واقعہ پیش آیا۔ ذیشان عمر اور سہراب نامی دو افراد نے اس کے چہرے پر اس لیے تیزاب چھڑک دیا کیونکہ اس نے ذیشان سے منگنی توڑ دی تھی۔

آج راحیلہ رحیم کی عمر تقریباً 23 سال ہے لیکن وہ بینائی سے تقریباً محروم ہوچکی ہے۔ اس کا چہرہ جھلس چکا ہے جبکہ تیزاب گردی نے اس کے ساتھ ساتھ اس کے بھائی اور بھانجے کو بھی اپنا شکار بنایا۔

تیزاب گردی کا شکار طالبہ کی کہانی۔۔ اس کی زبانی

میرا نام راحیلہ رحیم ہے جسے 17 جولائی 2015ء کو تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ منگنی ختم کرنے کی وجہ سے میرے خلاف انتقامی کارروائی کی گئی۔ ذیشان عمر نامی پولیس کانسٹیبل  اور اس کے دوست نے مجھ پر تیزاب پھینک دیا۔

ذیشان عمر گلشن اقبال کا غنڈہ ہے۔ وہ مجھے پانے کے لیے پیچھے لگ گیا۔ اس نے دھمکیوں کی بنیاد پرمنگنی کی۔ جب ہمیں پتہ چلا کہ ذیشان عمر غنڈہ ہے تو خوف کی وجہ سے ہم نے منگنی ختم کردی۔

اس نے میرے ساتھ ساتھ میرے چھ ماہ کے بھانجے کو بھی نہیں بخشا۔ میرے بھائی کو بھی تیزاب گردی کا نشانہ بننا پڑا۔ میرے بہنوئی مجھے تیزاب گردی کے بعد پولیس اسٹیشن لے گئے۔ میں نے بیان دیا کہ ذیشان عمر نے مجھ پر تیزاب پھینکا۔

علاقہ پولیس نے کہا کہ وہ بھی ہمارا پیٹی بھائی ہے۔ ہم پولیس والے کے گھر اس طرح نہیں جاسکتے۔ ہمارے پاس ثبوت ہوگا تو جائیں گے۔ ذیشان کے بڑے بھائی نے کہا کہ تیزاب پھینکا ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔

 

کراچی میں مجھے بہت دھمکیاں بھی دی گئیں۔ علاج کے دوران بھی لوگوں نے دھمکایا کہ تمہیں قتل کردیں گے۔آئی سی یو میں ڈاکٹر کا گاؤن پہن کر بھی ایک شخص مجھے قتل کرنے آیا تھا جسے بھائی نے دیکھ لیا۔

ہمیں ڈر اور خوف کے باعث اسلام آباد منتقل ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے مجھے سیکورٹی لیٹر دیا، تاہم میرا کیس کراچی سے اسلام آباد منتقل نہیں کیا جاسکا۔ میرا کیس ملزم ذیشان نے انسدادِ دہشت گردی عدالت  سے اثر رسوخ کی بنیاد پر ہٹوا دیا۔

ملزمان میں سے ایک یعنی سہراب کو ضمانت مل گئی جس کی بنیاد پر ذیشان نے بھی درخواست دے دی ہے کہ مجھے بھی ضمانت دی جائے۔ عدالت میں آمدورفت کے وقت ایسا نہیں لگتا کہ ملزم جیل سے آ رہا ہے۔

میرے  کیس کی گزشتہ 5 سال سے سنوائی نہیں ہوئی۔ مخالفین عدالت میں اس طرح کیس لڑ رہے ہیں کہ میری سنوائی آج تک نہ ہوسکی۔ جج نے آج تک روبرو میرا بیان نہیں لیا۔

نئے وکیل نے امید دلائی ہے کہ میرا بیان سنا جائے گا۔ اس تیزاب گردی کی وجہ سے ہمیں گھر اور کاروبار ختم کرکے اسلام آباد جانا پڑا۔ ہماری ہنستی کھیلتی زندگی میں تلخی آگئی۔

میری ایک آنکھ پوری طرح ضائع ہو گئی، دوسری میں 30 فیصد بینائی باقی ہے۔ میرے آپریشن ہوئے لیکن ان میں کوئی کامیابی نہیں ہوسکی۔ مجھے 5 سال گزرنے کے باوجود بھی امید ہے کہ مجھے انصاف ضرور ملے گا۔

راحیلہ رحیم کے والد کا بیان

راحیلہ رحیم کے والد عبدالرحیم نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا  ہے،  تیزاب گردی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ ملک میں بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) نہیں چاہتیں کہ کسی کو تیزاب گردی کی سزا دی جائے۔

عبدالرحیم نے کہا کہ کافی لوگوں نے کہا آپ کیس ختم کردیں۔ کچھ دے دلا کر ختم کردیں، لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے۔ ہم  چاہتے ہیں کہ معاملہ دے دلا کر رفع دفع نہ کیا جائے بلکہ واقعے کے ذمہ دار کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک تیزاب گردی کے مجرموں کو سزا نہیں ملے گی، یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے۔ہم پر کتنا ہی دباؤ کیوں نہ ڈالا جائے، ہم کیس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ  ذیشان نامی ملزم  ایک پولیس اہلکار ہے جسے اس کی نوکری سے آج تک نہیں نکالا گیا۔ ہم اسے نوکری سے بھی فارغ کروائیں گے۔

تیزاب گردی کے تلخ حقائق

تیزاب گردی کے بارے میں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ پاکستان کا قومی مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی تیزاب گردی کے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہیں۔

یورپ کے ترقی یافتہ ملک برطانیہ میں 4 سال قبل تیزاب گردی کے 398 واقعات رونما ہوئے جبکہ ایسے واقعات میں 2012ء سے 2018ء کے دوران دوگنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

پاکستان میں 2004ء سے 2017ء یعنی 13 سالوں کے دوران تیزاب گردی کے 513 واقعات ہوئے۔ 2010ء میں 65، 2011ء میں 49، 2013ء میں 51 افراد کو تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا۔

دنیا میں سب سےزیادہ تیزاب گردی بنگلہ دیش میں کی جاتی ہے جو 1971ء سے قبل مشرقی پاکستان کہلاتا تھا، لیکن یہ تاثر بہرحال درست نہیں کہ تیزاب گردی کے سب سے زیادہ واقعات پاکستان میں ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت کے خلاف ہے۔

تیزاب گردی کی ممکنہ وجوہات

کسی کے چہرے پر تیزاب پھینکنا کسی طرح بھی کسی عام انسان کے بس کی بات محسوس نہیں ہوتی۔ ایسا بھیانک جرم کرنے والے کسی نہ کسی حد تک نفسیاتی مریض ضرور ہوتے ہیں۔

زیادہ تر واقعات میں خواتین کو تیزاب گردی کا نشانہ بنانے والے ان کے سابقہ منگیتر، شوہر اور سسرالی رشتہ دار ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذاتی رنجش، بغض، کینہ اور حسد ایسے واقعات کا سب سے بڑا سبب بنتا ہے۔

اس کے علاوہ مالی تنازعات، وٹہ سٹہ، طلاق کی رنجش، پسند کی شادی اور شادی کی پیشکش مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ ناجائز تعلقات کے شبے پر بھی تیزاب گردی کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔

تیزاب کی دستیابی پر سوال 

پاکستان میں ہر سال درجنوں خواتین کو تیزاب گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تیزاب مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہے۔

دوسری جانب قانون ساز ادارے کہتے ہیں کہ شناختی کارڈ کے بغیر تیزاب خریدا نہیں جاسکتا۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ کیمیکل کے تاجران ان قواعد و ضوابط پر سرے سے عمل  ہی نہیں کرتے۔

جرائم پیشہ عناصر بہت آسانی سے تیزاب خرید کر اسے اپنے دشمنوں پر استعمال کرتے ہیں جس کا ثبوت ملک میں بڑھتے ہوئے تیزاب گردی کے واقعات ہیں۔ 

شرمین عبید کا کردار 

حیرت کی بات یہ ہے کہ تیزاب گردی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے حساس موضوعات پر فلمیں بنانے والی  صحافی اور فلمساز شرمین عبید راحیلہ رحیم کے واقعے پر خاموش نظر آتی ہیں۔ 

Image result for sharmeen obaid chinoy

شرمین عبید نے سیونگ فیس نامی  فلم پرآسکر ایوارڈ حاصل کر کے پاکستان کا نام عالمی برادری میں روشن  کیا تاہم   راحیلہ رحیم کو انصاف دلانے کے لیے شرمین عبید سمیت دیگر این جی اوز کو بھی آواز بلند کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ 

ہماری ذمہ داریاں

تیزاب گردی کے واقعات کا انسداد صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کے تمام طبقات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عدم برداشت اور ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائیں۔

Image result for protest against acid attack

معاشرے کے ہر فرد کو صبر و تحمل، رواداری اور مساوات کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ قانون سازوں کو ملک کی اسمبلیوں میں قانون سازی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

جب تک ہم تیزاب گردی جیسی لعنت کے خلاف صف آراء نہیں ہوتے۔ درندہ صفت لوگ اور نفسیاتی مریض ہنستی مسکراتی زندگیوں کو جہنم بنانے کا مذموم کاروبار جاری رکھیں گے۔ بد ترین جرائم کی سزا بھی دردناک رکھی جائے۔