کراچی کی رہائشی راحیلہ رحیم کے ساتھ 17 جولائی 2015ء کو تیزاب گردی کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ تیزاب گردی ہمارے معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں، لیکن یہ کوئی ایسی چیز بھی نہیں جسے آسانی سے بھلایا جاسکے۔
زیادہ تر خواتین کو منگنی نہ ہونے، ذاتی دشمنی یا دیگر مختلف اسباب کے باعث تیزاب گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آج ہم اس حوالے سے راحیلہ رحیم کی مثال سامنے رکھتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں کہ معاشرے کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
راحیلہ رحیم کا واقعہ:
راحیلہ رحیم 18 سالہ میٹرک کی طالبہ تھی جس کے ساتھ ساڑھے 4 سال قبل تیزاب گردی کا واقعہ پیش آیا۔ ذیشان عمر اور سہراب نامی دو افراد نے اس کے چہرے پر اس لیے تیزاب چھڑک دیا کیونکہ اس نے ذیشان سے منگنی توڑ دی تھی۔
آج راحیلہ رحیم کی عمر تقریباً 23 سال ہے لیکن وہ بینائی سے تقریباً محروم ہوچکی ہے۔ اس کا چہرہ جھلس چکا ہے جبکہ تیزاب گردی نے اس کے ساتھ ساتھ اس کے بھائی اور بھانجے کو بھی اپنا شکار بنایا۔
تیزاب گردی کا شکار طالبہ کی کہانی۔۔ اس کی زبانی
میرا نام راحیلہ رحیم ہے جسے 17 جولائی 2015ء کو تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ منگنی ختم کرنے کی وجہ سے میرے خلاف انتقامی کارروائی کی گئی۔ ذیشان عمر نامی پولیس کانسٹیبل اور اس کے دوست نے مجھ پر تیزاب پھینک دیا۔
ذیشان عمر گلشن اقبال کا غنڈہ ہے۔ وہ مجھے پانے کے لیے پیچھے لگ گیا۔ اس نے دھمکیوں کی بنیاد پرمنگنی کی۔ جب ہمیں پتہ چلا کہ ذیشان عمر غنڈہ ہے تو خوف کی وجہ سے ہم نے منگنی ختم کردی۔
اس نے میرے ساتھ ساتھ میرے چھ ماہ کے بھانجے کو بھی نہیں بخشا۔ میرے بھائی کو بھی تیزاب گردی کا نشانہ بننا پڑا۔ میرے بہنوئی مجھے تیزاب گردی کے بعد پولیس اسٹیشن لے گئے۔ میں نے بیان دیا کہ ذیشان عمر نے مجھ پر تیزاب پھینکا۔
علاقہ پولیس نے کہا کہ وہ بھی ہمارا پیٹی بھائی ہے۔ ہم پولیس والے کے گھر اس طرح نہیں جاسکتے۔ ہمارے پاس ثبوت ہوگا تو جائیں گے۔ ذیشان کے بڑے بھائی نے کہا کہ تیزاب پھینکا ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔