باہمی تجارت میں تیزی لانا ہوگی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے جس طرح ذرائع کاروبار کو متاثر کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی، اور غیر معمولی ہے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال خصوصاً کاروباری لین دین کے باعث کاروبار کے منظر کو بدل کر رکھ دیا ہے، مالی لین دین کے روایتی طریقوں کو جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی خدمات کے باعث تیزی سے تبدیل کیا جارہا ہے اور اب ڈیجیٹل بینکاری معمول ہوتی جارہی ہے۔

انٹرنیٹ سے منسلک لاکھوں اسمارٹ آلات کے ذریعے سیکنڈ وں میں لاکھوں ٹرانزیکشن سیکنڈوں میں کی جاسکتی ہیں، ڈیجیٹل ڈیوائسز کے وسیع پیمانے پر استعمال سے مالیاتی لین دین کے عمل کو آسان بنا کر لین دین کے اخراجات کو کم کرکے ترقیاتی یافتہ ممالک اپنی ترقی کی رفتار کو مزید تیز کررہے ہیں۔

اس سارے معاملے کے باوجود مالی لین دین کی ڈیجیٹلائزیشن نے سائبر حملوں کے خطرے کو بھی بڑھا وا دیا ہے، اور ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کو انجام دینے کے لئے استعمال ہونے والے ڈیجیٹل ڈیوائسز کی وجہ سے مالی دھوکہ دہی سائبر حملوں کا زیادہ خطرہ ہے۔

یہ ڈیوائسز ممکنہ طور پر دھوکہ دہی، ڈیٹا چوری، اور یہاں تک کہ حساس معلومات تک رسائی بھی حاصل کرسکتی ہیں جو تشویشناک ہے، خاص طور پر بھتہ خوری اور دیگر قسم کے خطرات کے باعث ترقی یافتہ ممالک کے لئے اس سے بچنے کے لئے ایک چیلنج درپیش ہے، ہمارے پاس بہت ساری مثالیں موجود ہیں جہاں سائبر سیکیورٹی میں پائی جانے والی خرابیوں کے نتیجے میں تباہی ہوئی۔

مثال کے طور پر، مئی 2017 میں، برطانیہ، اسپین، چین، اٹلی، ویتنام، تائیوان اور دیگر ممالک میں ٹیلی کام مواصلات، اسپتالوں، ریلوے نظام، آٹوموبائل، اور یوٹیلیٹی سیکٹر جیسے مختلف شعبوں کے تقریبادو لاکھ کمپیوٹرز کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی، جون 2017 میں بھتہ خوری کی وارداتوں کے حوالے سے 64ممالک زیادہ متاثر ہوئے، اس طرح کے سائبر کرائم نہ صرف ڈیجیٹل مالیاتی نظام کے استحکام کے لئے خطرہ ہیں، بلکہ اس کے باعث مالی امورکے معاملات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

پاکستان کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو سائبر سیکیورٹی کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس وقت ملک میں مالی شمولیت میں بہت زیادہ اضافہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ حال ہی میں میں نے پی ایچ ڈی کے طالب علم کے ساتھ سائنسی طور پر جانچنے کے لئے ایک تحقیقی مطالعہ کا ذکر کیا ہے، میری تحقیق کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ سائبر کرائم مالی امورکے عمل کو متاثر کرسکتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمیں مالی امورمیں سائبر سیکیورٹی کے حیرت انگیز اثرات ملے ہیں۔ جب کہ ہمیں سائبرسیکیوریٹی انفراسٹرکچر اور قواعد و ضوابط کی تعمیر کے لئے حکومت کی طرف سے خاطر خواہ کوششیں دیکھنے کو نہیں مل رہیں۔ ہم نے یہ بھی پایا کہ سائبرسیکیوریٹی پالیسی کی کمی، سائبر سکیورٹی کی حکمت عملیوں کا ناقص نفاذ، معلومات کا کمزور انفراسٹرکچر، واضح شناخت اور آئی سی ٹی کی درجہ بندی بھی مجرموں کو سائبر حملوں کی کوشش کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

اس کے علاوہ، سائبر سیکیورٹی کے حوالے کم معلومات، سائبر سیکیورٹی سسٹم کے لئے فنڈز کی فراہمی کا فقدان، سائبر سیکیورٹی کی مہارت، سائبر سکیورٹی کی صلاحیت کا آڈٹ، اور سائبر حملوں کے مرتکب افراد کے لئے سزائیں،وہ خامیاں ہیں جن کے ذریعے ملزمان سسٹم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

مالیاتی شعبہ عالمی حکام اور مانیٹرنگ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر ایسے سائبر کرائمز سے نمٹنے کے لئے ایسے خطرات کی نگرانی اور ان سے نمٹنے کے لئے ایک ماڈل تیار کرنے کے لئے کام کرتا ہے۔ یہاں سب سے اہم تشویش یہ ہے کہ سائبر کرائم کے رجحانات کی نشاندہی کرنے اور اس کے مطابق ماڈل مرتب کرنے کے لئے بینکاری کے شعبے میں کوئی قابل تعریفخدمات موجود نہیں ہیں۔

مالی امور کی حکمت عملی کو موثر انداز میں تیز کرنے کے لئے ہمیں اس حوالے سے بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ سائبرسیکیوریٹی ایک اہم عنصر ہے اور اس کے لئے مناسب سائبر سیکیورٹی انفراسٹرکچر اور سائبر قوانین کی تعمیر کے لئے حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے۔ سائبر سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں کئے بغیر اچھی سرمایہ کاری اور مالی شمولیت کا خواب کبھی بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔

Related Posts