مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہمارے ہاں جو گھریلو مسائل سب سے زیادہ زیر بحث رہتے ہیں ان میں ایک تو یہ ہے کہ شادی کس عمر میں ہونی چاہئے اور دوسرا یہ کہ بچے کتنے اچھے ؟

دوسروں کی طرح اس حوالے سے ہمیں بھی نوجوانی ہی سے بہت کچھ سننے اور پڑھنے کو ملا۔ ان میں بہت سے مغالطے تھے تو بہت سی کار آمد باتیں بھی۔ لیکن عملاً ہمیں بعض ایسے تجربات سے گزرنا پڑا جن میں سے بعض کا ہم اور ہماری فیملی پر بہت خوشگوار اثر پڑا جبکہ بعض حوالوں سے بہت تکلیف دہ صورتحال کا بھی سامنا ہوا۔ ان تجربات کا اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا کارآمد ہوسکتا ہے۔ شیئر کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ مذکورہ دونوں سوالات کے حوالے سے کتابی کے ساتھ ساتھ عملی صورتحال بھی سامنے آسکے۔

یہ تجربات ہمارے لئے اس اعتبار سے بہت اہم ثابت ہوئے کہ ہم نے ان دونوں حوالوں سے جو کتابی یا نصابی باتیں سن رکھی تھیں ان میں ان کا ذکر نہیں تھا۔ سو جب ان کا سامنا ہوا تو یہ ہمارے لئے کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کی ہمیں توقع رہی ہو۔ اور جس کے لئے ہم نے ذہنی طور پر خود کو پہلے سےتیار کر رکھا ہو۔ سب سے پہلی قابل غور بات تو یہ ہے کہ ہمارے والد مرحوم کی شادی 36 برس کی عمر میں ہوئی تھی اور ہماری پیدائش کے وقت ان کی عمر 37 برس تھی۔ چنانچہ ان کی بہت ابتدائی صورت جو ہماری یاداشت میں محفوظ ہے اس میں بھی ان کی نصف کے قریب ڈاڑھی سفید اور نصف سے تھوڑی زیادہ سیاہ تھی۔ جب کچھ سال بعد ہم شعور کی عمر کو پہنچے تو ہمارے سامنے والد ایک بابا جی کے طور پر موجود تھے۔ گویا ہماری یاداشت میں والد مرحوم کی جوانی کا کوئی عکس محفوظ نہیں۔ بہن ہماری کوئی نہ تھی اور 9 بھائیوں میں سب سے بڑے ہم ہی تھے۔ سو خود ہی اندازہ کر لیجئے کہ ہمارے بعد والے بھائیوں کا معاملہ اور بالخصوص ان میں سے بھی سب سے چھوٹے بھائیوں کا معاملہ کیا رہا ہوگا۔

ہمیں اپنے باقی بھائیوں کے دلوں کا حال تو نہیں معلوم لیکن ہم اپنے والد کی جوانی کی جھلک نہ دیکھ پانے کو بہت بری طرح محسوس کرتے ہیں۔ وہ ایک زبردست انسان تھے، ان کا بیٹا ہونا ہمارے لئے بہت بڑے معانی رکھتا ہے لیکن ہم اس زبردست انسان کی جوانی کی ہلکی سی جھلک بھی صرف اس لئے نہیں دیکھ پائے کہ ان کے والد نے ان کی شادی بہت تاخیر سے کی تھی۔ اس کا خود ان پر کیا اثر پڑا ہوگا اس حوالے کبھی ان سے کچھ سننے کو نہیں ملا لیکن ہم پر تو ہرگز اچھا اثر نہیں پڑا۔ شاید اپنی شادی میں تاخیر کے تلخ تجربے کا ہی اثر رہا ہو کہ ہماری شادی انہوں نے بیس برس کی عمر میں کردی۔ اور ہمارے دیگر بھائیوں کی شادیاں بھی کچھ کمی بیشی کے ساتھ انہی عمروں میں ہوئیں۔ جس بھائی کی شادی سب سے لیٹ ہوئی ان کی شادی کے موقع پر عمر پچیس برس تھی۔

ہمارے ذہن میں شروع سے ہی کم بچوں کا خیال تھا۔ اور سبب اس کا تعلیم و تربیت ہی رہا۔ اتنی سی بات ہم بیس برس کی عمر میں ہی جانتے تھے کہ کلاس میں بچے جتنے کم ہوں ٹیچر کے لئے پڑھانا اور بہتر نتائج دینا اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ چنانچہ تین بچوں کا ارادہ تھا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے تین بیٹوں سے نوازا۔ ہم نے ٹی وی پروگراموں اور اخبارات و جرائد میں دانشوروں سے یہی سن پڑھ رکھا تھا کہ بیس برس کی عمر میں شادی کرنا غلط ہے، اس کے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں۔ لیکن عملا دیکھا اس کے برعکس۔ کبھی کوئی ایسی الجھن پیش نہیں آئی جس کے حوالے سے یہ خیال آیا ہو کہ اس کا سامنا جلد شادی کے سبب ہوا۔ زندگی بڑی ہنسی خوشی آگے بڑھتی رہی۔ بچے پڑھ بھی اچھا رہے تھے اور تربیت بھی شاید اچھی ہی پا رہے تھے کہ تیس برس کے دوران ہمارے گھر ہمارے کسی بچے کی صرف ایک بار شکایت آئی ہے۔ اور وہ شکایت بھی منجھلے بیٹے کی تب آئی تھی جب وہ 9 برس کا تھا۔

لیکن ایسا نہیں کہ ہمیں کسی مسئلے کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑا۔ ہمیں ایک ایسے عجیب و غریب بحران سے دوچار ہونا پڑا جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ہمیں اپنے حصے کے سنگین خانگی بحران سے تب دوچار ہونا پڑا جب سب سے چھوٹا بیٹا بھی بلوغت کی دہلیز پار کرکے نوجوانی کو آپہنچا۔ وہ جوں جوں جوان ہوتا گیا ہمارا بحران شدید تر ہوتا گیا۔ اور بحران یہ تھا کہ اس کی جوانی کے آغاز کے ساتھ ہی ہمارا گھر بہت تیزی سے گھر کی جگہ ایک ایسے ہاسٹل میں تبدیل ہو گیا جہاں ہم پانچ عاقل بالغ لوگ رہ رہے تھے۔ یہ صورتحال اس لئے پیدا ہوئی کہ اس گھر میں اب وہ بچہ نہیں تھا جس کا رونا ہمیں بیقرار کرڈالتا، جو ہم سے ضد کرتا کہ مجھے باہر گھما لاؤ، جو ہاتھ بڑھاتا اور میز پر پڑا شیشے کا گلاس اٹھانے کے چکر میں چکنا چور کر دیتا، جس کے لئے رنگ برنگے کپڑے خرید کر لائے جاتے، جو بیٹری کمزور ہونے پر کھلونا زمین پر پٹخ دیتا اور ہم فورا نئی بیٹری کے انتظام میں لگ جاتے۔ جو کبھی ہماری داڑھی کے بال پکڑ کر کھینچتا تو کبھی عینک پر جھپٹا مارتا، جس کی خوشی ہماری شادمانی اور جس کی اداسی ہمارا امتحان ہوتی، جو کبھی ہماری گود گیلی کرکے ہمیں باتھ روم کی طرف دوڑا دیتا تو کبھی بازو پر سر رکھ سوتا اور ہمیں منجمد کر ڈالتا۔

جس کی قلقاریوں سے ہم ہی نہیں ہمارے در و دیوار بھی توانائیاں سمیٹتے اور جس کا رونا ہر دیوار کو دیوار گریہ بنا ڈالتا۔ اس ایک بچے کے نہ ہونے سے ہمارے گھر کا گھر ہونا ختم ہوکر رہ گیا تھا اور ہم سب ہی بہت عجیب صورتحال سے دوچار تھے۔ اس ہاسٹل میں، ہم ، ہماری اہلیہ اور تینوں بیٹے پچھلے آٹھ سال رہے۔ 2017ء میں بڑے بیٹے صلاح الدین کی پچیس برس کی عمر میں شادی ہوئی۔ اس شادی کے بعد جس شدت سے ننھے مہمان کا ہم پانچ لوگوں نے انتظار کیا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ یہ ایک بہت طویل خشک سالی کے بعد آنے والی ہریالی کے انتظار جیسا تھا۔ اللہ نے فضل و احسان فرمایا اور الحمدللہ 2018ء میں ہمارے پہلے پوتے عمر عالم کی پیدائش ہوگئی۔ اس کی پیدائش کے ساتھ ہمارے گھر میں جو بات سب سے زیادہ کہی گئی وہ یہی تھی کہ کئی سال بعد اب یہ گھر پھر سے گھر بن جائے گا۔ اب یہ اس ہاسٹل کی طرح نہیں رہے گا جہاں عاقل بالغ لوگ رہ رہے تھے۔ اب یہاں گلاس ٹوٹیں گے، گلدان گریں گے اور اوراق پھٹیں گے۔

ہم نے اس کالم میں کوئی دانشوری بھگارتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ ہمیں شادی اور بچوں کے حوالے سے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں۔ ہم نے بس وہ بیان کیا ہے جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑا۔ اب اس کا تجزیہ ہم نہیں کریں گے، آپ خود کیجئے لیکن تجزیہ شروع کرنے سے قبل یہ آخری بات بھی جان لیجئے کہ پہلے پوتے کی تاریخ پیدائش پر ہماری عمر 49 برس اور ڈھائی ماہ تھی۔ آج ہماری عمر 54 برس ہے۔ تین سال قبل دوسرے بیٹے کی شادی بھی کرچکے۔ اس سے بھی ہمارا س وقت 2 برس کا ایک پوتا ہے۔ دونوں پوتے گھر پر خوب ہنگامہ مچائے رکھتے ہیں۔ اور یہ ہنگامہ ہمیں کبھی ایک لمحے کو بھی برا نہیں لگا۔ کبھی ان سے نہیں کہا کہ شور مت کیجئے۔ کیونکہ اس ہنگامے کی برکت سے ہی تو ہمارا گھر اب ہاسٹل نہیں گھر ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ صرف بیس برس کی عمر میں شادی کا آج ہمیں سب سے بڑا ایڈوانٹج یہ حاصل ہے کہ ہماری بہوؤں کو ہمارے بیٹوں کے کان میں یہ سرگوشی پھونکنے کا موقع دستیاب نہیں کہ ’’جانو ! تمہارے ابا کھانستے بہت ہیں، ہم ساری رات سو نہیں پاتے، بڈھے کو سرونٹ کوارٹر میں نہ شفٹ کردیں ؟‘‘

Related Posts