ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال خاصے پیچیدہ موڑ میں داخل ہوچکی ہے، اس موقعے پر مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے چند ایک اہم واقعات کا ذکر ضروری ہے۔
قومی سطح پر آج سے 2 روز قبل یعنی 7جولائی کو ملک کی سابق حکمراں سیاسی جماعت تحریکِ انصاف نے آئی ایم ایف کے پاکستان سے معاہدے کی حمایت کی حالانکہ اسی سیاسی جماعت کی جانب سے معاہدے کی کھل کر مخالفت بھی کی جارہی تھی، حتیٰ کہ ان کے اپنے ہی سابق وزیرِ خزانہ کی خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا کو بتاتے ہوئے ویڈیو لیک ہوئی کہ آئی ایم ایف کو خط لکھ دو کہ ہم ان کی شرائط پر عمل نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں آئی ایم ایف قرض نہ دے اور ملک ڈیفالٹ کی طرف چلا جائے۔
اگر کوئی سیاسی جماعت قومی مفاد میں کوئی بیان دے تواس کی پذیرائی کی جانی چاہئے۔ تحریکِ انصاف نے آئی ایم ایف کے حق میں حالیہ بیان کے عوض جو فائدہ حاصل کیا وہ یہ تھا کہ پوری دنیا کو اپنا پیغام پہنچا دیا کہ پاکستان میں عام انتخابات ہر صورت منعقد ہونے چاہئیں، انتخابات صاف و شفاف ہوں اور ملک میں جمہوری نظام ہونا چاہئے۔
دوسری جانب یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کی حمایت نہ کرنے اور یہ اعلان کرنے کی صورت میں کہ ہم اقتدار میں آنے کے بعد آئی ایم ایف سے معاہدہ ختم کردیں گے، تحریکِ انصاف کے ووٹرز سمیت پوری قوم تحریکِ انصاف سے ناراض ہوسکتی تھی، سو حقیقت یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی نے یہ تمام تر نکات اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے اس ردِ عمل میں ہی بھلائی سمجھی ہوگی۔
آج سے 79سال قبل یعنی 1944ء میں قائم ہونے والے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے طریقہ کار کے مطابق سیاسی معاملات کا تجزیہ بھی ضروری سمجھا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر رسک اسیسمنٹ کی جاتی ہے کہ آیا جس ملک کو قرضہ دیا جارہا ہے وہ اپنے دگرگوں حالات کی وجہ سے قرض واپس کر سکے گا یا نہیں۔
ہی وجہ ہے کہ جب آئی ایم ایف کسی ملک کو قرض دینے سے انکار کردے تو اسے دیگر عالمی ادارے بھی یہ سوچ کر قرض نہیں دیتے کہ آئی ایم ایف نے بہت گہرائی سے تجزیہ کرنے کے بعد ہی انہیں قرض دینے سے انکار کیا ہوگا۔
مقامی سیاست کے اعتبار سے اگر ہم ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بات کریں تو اسے ماضی کی طرح آج بھی سونے کی چڑیا سمجھا جاتا ہے کیونکہ ملک کو 75 سے 80فیصد تک ریونیو اس شہر سے حاصل ہوتا تھا، آج یہ 60فیصد تک آچکا ہے کیونکہ یہاں سے صنعتیں اور کاروباری سرگرمیوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔
مرتضیٰ وہاب جیسے مزید 10 افراد بھی لے آئیں تو کراچی کے ہر دو ر میں ابھارے ہوئے بڑے مسائل دو تین سال میں حل نہیں کیے جاسکتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی کی آبادی قیامِ پاکستان کے وقت ساڑھے 4 لاکھ تھی۔ آج یہاں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹر شدہ 2 سے ڈھائی کروڑ لوگ بستے ہیں۔ ملک کے باقی شہروں کی طرح اس شہر کو جو بجٹ ملتا بھی ہے اس کی بھی وافر مقدار کرپشن کی نذر ہوجایا کرتی ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ یہاں پینے کا اور سیوریج کا پانی ایک ہوچکا ہے۔ یہاں 400 کے قریب چھوٹے نالے اور 40 کے قریب بڑے ڈرینیج تھے تاکہ برسات کے پانی کا نکاس ہوسکے لیکن آج ان کی اکثریت گندگی کے ڈھیر لگنے کی وجہ سے بند اور نکاسئ آب کا راستہ تنگ ہوچکا ہے۔ یہاں رشوت ستانی اتنی زیادہ ہے کہ ایس بی سی اے اور دیگر اداروں کو رشوت دے کر نالوں پر بلند و بالا عمارات تعمیر کر لی گئی ہیں اور بلڈر مافیا کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جس نے شہر کو کنکریٹ کا جنگل بنا دیا۔
شہر کا 60 فیصد علاقہ تو کے پی ٹی، پورٹ قاسم اور کنٹونمنٹ کا علاقہ ہے۔ اگر اس پر پورے پاکستان کا بجٹ لگا دیں تب بھی یہ مسائل ایک دو برس میں حل نہیں ہوسکیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کیلئے ایک طویل المدت منصوبہ بنا کر صورتحال بتدریج سدھارنے کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ 2020ء میں یہاں 221ملی میٹر بارش ہوئی۔ گزشتہ برس بھی لوگ مرتے رہے اور غریبوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا جبکہ رواں برس بھی مون سون کی بارشیں جاری ہیں۔ بقول شاعر:
غریبوں پرتو موسم بھی حکومت کرتے رہتے ہیں
کبھی بارش، کبھی گرمی، کبھی ٹھنڈک کا قبضہ ہے
اگر بین الاقوامی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ پاکستان، چین اور ایران کے سہ فریقی اتحاد نے بھارت کو شش و پنج میں ڈال رکھا ہے۔ تینوں ممالک میں بڑھتی ہوئی قربتوں کو بھارت خاصی خشمگیں نظروں سے دیکھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ بھارت اس صورتحال سے پریشان کیوں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت ایران کی بندرگاہ چابہار سے سڑک بنانے کیلئے کوشاں تھا اور وہاں سے ریلوے لائن بھی بچھائی جارہی تھی جس کا مقصد افغانستان کی سرزمین سے گزرتے ہوئے وسطی ایشیا کے ممالک تک رسائی حاصل کرنا تھا۔
تاہم ہمیں بھارت کی موجودہ جیو اسٹرٹیجک اہمیت کو اس نقطۂ نظر سے سمجھنا ہوگا کہ ایک تو بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کا بھی رکن ملک ہے اور دوسری جانب امریکا نے اسے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کیلئے اپنی خارجہ پالیسی کے تحت خطے کا چوہدری بنا کر ہمارے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
ہم متعدد مقامات پر اس بات کا ذکر کرچکے ہیں کہ امریکا نے کئی دفاعی معاہدے کر رکھے ہیں جن کے مطابق بھارت پابند ہے کہ وہ چین کو روکنے کیلئے امریکی اقدامات کی حمایت اور تعاون کرے اور آگے بڑھ کر بڑے تھانیدار کی حیثیت سے خطے میں امریکا کا ساتھ دے۔
چین کے تعلقات دنیا کے بیشتر ممالک سے بہت اچھے ہیں اور ان میں اسرائیل بھی شامل ہے۔ سپر ڈپلومیسی کے تحت مسئلۂ فلسطین پر بھی ثالثی کا عمل جاری ہے جبکہ اس سے قبل چین نے ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالث بن کر دنیا کو حیران کردیا تھا۔
یوں چین کی سپر ڈپلومیسی کے تناظر میں ہمارے پورے خطے کے جیو پولیٹیکل پہلو میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ چین نے اسٹرنگ آف پرل اور امریکا نے اسٹرنگ آف الائنس بنا رکھا ہے جو کہ ان دو بڑے ممالک کی ایک دوسرے کے خلاف صف بندی کا ایک بین ثبوت ہے۔
تاہم اس تناظر میں اگر ہم شنگھائی تعاون تنظیم اور اقتصادی تعاون تنظیم کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے خطے کی موجودہ صورتحال دیکھیں تو چین کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ 3 ٹریلین ڈالر کا چینی منصوبہ بی آر آئی اس تناظر میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
بی آر آئی منصوبے کا ایک اہم ترین حصہ پاک چین اقتصادی راہداری یعنی سی پیک ہے۔ اب سی پیک میں ایران اور افغانستان کو بھی شامل کیا جارہا ہے۔ یوں خطے میں چین کی جیو پولیٹیکل اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہونے والا ہے اور پاکستان تو ہمیشہ سے چین کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسے میں بھارت کے ماتھے پر بل پڑنے کی وجوہات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔