بھگتیں اپنی لبیک کو

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اس ملک میں چند ایسی مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں جن کی عمر لگ بھگ اس ملک جتنی ہی ہے۔ ہم ان کے سیاسی منشور اور ایجنڈے سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ یہ جماعتیں نہ تو مذہبی انتہاء پسند ہیں اور نہ ہی سیاسی انتہاء پسند۔ لگ بھگ تمام ہی کسی نہ کسی مسلک کی نمائندگی کرتی ہیں لیکن ان کی تاریخ مسلکی تنازعات سے پاک و صاف ہے۔

یہ نہ سیاسی مقاصد کے لئے فرقہ واریت کا سہارا لیتی ہیں اور نہ ہی اس قسم کی سرگرمیوں کو پسند کرتی ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ کے اہم ترین مواقع پر یہ باہم متحد بھی نظر آئی ہیں۔

مثلاً 70 کی دہائی میں مفتی محمود مرحوم، مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم اور پروفیسر غفور احمد مرحوم وغیرہ کی مشترکہ سیاسی سرگرمیاں یا بعد کے دور میں ایم ایم اے کا پلیٹ فارم۔ یہ جماعتیں کئی بار آپس میں جڑیں اور کئی بار ان کے اتحاد ٹوٹے بھی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ساتھ چل نہیں سکتے اس لئے ان کے اتحاد پائیدار نہیں رہتے۔

ہر سیاسی اتحاد کسی صورتحال کا نتیجہ ہوتا ہے،سو صورتحال تبدیل ہوتے ہی اتحاد باقی نہیں رہتا جس کا سب سے بڑا ثبوت خود سیکولر جماعتوں کے اتحاد ہیں جو دنیا بھر میں بنتے بھی ہیں اور ٹوٹتے بھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان جماعتوں کے اتحاد جتنی بار بھی ٹوٹے، سیاسی وجوہات کی وجہ سے ہی ٹوٹے۔ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی مسلکی اختلاف ان کے سیاسی اتحاد کے ٹوٹنے کا سبب بنا ہو۔

کسی نے کبھی یہ نہیں کہا چونکہ مولانا فضل الرحمن نماز کا سلام پھیر کر بہ آواز بلند درود نہیں پڑھتے لہٰذا ہم ان کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے اور نہ ہی کبھی کسی نے یہ کہا کہ چونکہ مولانا شاہ احمد نورانی فلاں فلاں مذہبی عقائد کے قائل ہیں لہٰذا ہمارا ان کے ساتھ چلنا محال ہے۔

یہ ساری جماعتیں اپنا مذہبی چلن بیشک اپنے مسلک کے مطابق رکھتی ہیں، مگر دیگر جماعتوں کے مسلکی امور میں دخل نہیں دیتیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک بھی جماعت کے منشور میں یہ شامل نہیں کہ ہم برسر اقتدار آکر ملک کو فلاں فلاں مذہبی بدعت سے پاک کریں گے یا اپنے مسلک کی فلاں فلاں چیز کو رائج کروائیں گے۔

پھر ان میں سے بالخصوص مفتی محمود کے گھرانے اور نورانی صاحب کے خانوادے کے مراسم تو بہت ہی قریبی ہیں۔ ان دو گھرانوں کی باہمی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک دور میں مفتی محمود بڑے بھائی اور نورانی صاحب چھوٹے بھائی کا رول پلے کرتے رہے۔

مفتی صاحب کی رحلت کے بعد نورانی صاحب بڑے بھائی اور مولانا فضل الرحمن چھوٹے بھائی کے رول میں نظر آئے۔ پھر ایک دن نورانی صاحب بھی داغ مفارقت دے گئے تو اب مولانا فضل الرحمن بڑے بھائی اور اویس نورانی چھوٹے بھائی کے کردار میں نظر آرہے ہیں۔

مسلکی ہم آہنگی کے اس ماحول کا ایک بڑا ہی جاندار کردار مرحوم قاضی حسین احمد بھی ہیں بلکہ یہ کہنا قطعی بے جا نہ ہوگا سب سے روشن کردار ہی وہ ہیں۔ ہر لمحہ چہرے پر تبسم، اور سب کے لئے باہیں کھلی ہوئیں۔ جب تک جماعت اسلامی کی امارت ان کے پاس تھی، ایم ایم اے قائم بھی رہی اور پوری طرح سرگرم بھی۔

قاضی صاحب پر اپنی جماعت کے اندر سے دباؤ موجود تھا مگر اس دباؤ کے اثرات انہوں نے ایم ایم اے پر نہیں پڑنے دیئے۔ ان کے بعد تنہاء اڑان کے شوقینوں نے ایم ایم اے تو توڑ ڈالی مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ تنہاء اڑان بھی بھر پائے ؟ ذرا سا اپنا رنگ دکھایا تو پر کاٹ کر گھر بھیج دیئے گئے۔

قاضی صاحب جماعت اسلامی کی امارت سے دستبردار ہوئے تو گھر نہیں بیٹھ گئے تھے بلکہ خود کو بین المسالک سرگرمیوں کے لئے ہی وقف کردیا تھا۔ سید منور حسن کو گھر بیٹھنا پڑ گیا تھا۔

قاضی صاحب جیسا کشادہ دل اور اپنے مخصوص دائرے سے باہر دیکھنے والی نگاہ بس انہی کا خاصا تھی۔ ان کی امارت کا بغور جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنی امارت کی پہلی ٹرم میں ہی اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ صرف جماعت اسلامی کی حد تک سوچنا اور خود کو اس کے مفادات کے وقف کرنا ایک بڑی غلطی ہوگی۔

چنانچہ اپنی دوسری ٹرم سے ہی ان کی سرگرمیوں کا رخ جماعت اسلامی کے مفادات کے بجائے “اہل دین” کے مفادات کی جانب مڑتا نظر آگیا تھا۔ جس کا پہلا نتیجہ ملی یکجہتی کونسل کی صورت سامنے آیا تھا۔ اور مرتے دم تک ان کا طرز عمل یہی رہا کہ صرف جماعت اسلامی کا ہوکر نہیں رہنا۔ اور یہی چیز انہیں جماعت اسلامی کے دیگر امراء ہی نہیں بلکہ مجموعی طور ہمارے تمام مرحوم سیاستدانوں میں ایک امتیازی حیثیت دیتی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے ساتھ بالعموم ہمارے معاشرے اور بالخصوص ہماری سیکولر جماعتوں اور سیکولر میڈیا کا رویہ تاریخ کے ہر موڑ پر کیا رہا ؟ کونسی بھپتی ہے جو ان پر نہیں کسی گئی ؟ اور کونسا طعنہ ہے جو انہیں نہیں دیا گیا ؟ یہ جماعتیں مسلسل بھائی چارگی کا مظاہرہ کرتی ہیں، اور میڈیا مسلسل اسے ناکام کرنے میں مشغول رہتا ہے۔ کبھی یہ سوال اٹھایا جاتا کہ کس مسلک کا اسلام نافذ کیا جائے گا ؟ تو کبھی یہ بریکنگ نیوز دی جاتی کہ یہ تو ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہیں پڑتے۔

اگلے دن وہ باجماعت نماز کی تصاویر جاری کر دیتے تو اس میں بھی کیڑے نکالے جاتے کہ نہیں ! فلاں امامت کرتا تو فلاں اقتدا نہ کرتا۔ ایک لمحے کو ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ میڈیا اپنے ان حملوں کے ذریعے مسلسل فرقہ واریت کو ہوا دیتا رہا یا نہیں ؟ اور کیا ایک بار بھی ان کی یہ کوشش کامیاب ہوئی ؟ کیا ایک بار بھی ایسا ہوا کہ میڈیا ان کی مسلکی ہم آہنگی کو منتشر کرنے میں کامیاب ہوا ہو ؟ ہاں ایک نقصان ہوا، اور بہت ہی تباہ کن ہوا۔ وہ یہ کہ یہ جماعتیں اپنی پوری استعداد کے مطابق پھیلاؤ اختیار نہ کرسکیں جس کا خمیازہ سندھ اور پنجاب کو ہی نہیں بلکہ اسلام آباد کو بھی اب مسلسل بھگتنا پڑتا ہے۔

کسی کو اچھا لگے یا برا، لیکن پاکستان کے دو صوبے ایسے ہیں جہاں مذہب اور مذہبی شخصیات کو اہم سماجی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ ان دونوں صوبوں یعنی خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے یہ جماعتیں لاکھوں کی تعداد سے ووٹ بھی حاصل کرتی ہیں۔ لیکن میڈیا اور پروپیگنڈے کا جلد اثر قبول کرنے والے سندھ اور پنجاب میں صورتحال مختلف ہے۔ وہاں مثبت چلن والی ان مذہبی سیاسی جماعتوں کا کوئی اثر نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان دوصوبوں میں مذہب ہی کوئی اثر نہیں رکھتا ؟ مذہبی شخصیات کو دیکھتے ہی مسترد کردیا جاتا ہے ؟ نہیں ! اثر وہاں بھی ہے مگر صد افسوس کہ منفی شکل میں اور منفی شکلوں والوں کا ہے۔

سندھ اور پنجاب میں ان کی جڑیں مضبوط ہیں جو فرقہ واریت کا زہر بیچتے ہیں۔ اور ان دونوں صوبوں کی زمین اس معاملے میں ایسی سازگار ہے کہ کل لبیک بنی، اور اگلے دن ان دونوں صوبوں میں چھا بھی چکی۔ کتنے دن لگے انہیں جڑ پکڑنے میں ؟ لبیک کے معاملے میں تو آپ یہ عذر بھی پیش نہیں کرسکتے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے جڑیں پکڑی ہیں۔ کیونکہ ہم صحافیوں کا لگ بھگ اجماع ہی چلا آرہا ہے کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی بھی اسٹیبلشمنٹ کی جماعتیں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ جماعت اسلامی یا جے یو آئی کو پنجاب میں جڑیں کیوں عطاء نہ کرسکی ؟۔

کیا وجہ ہے کہ ہر مسلک کی صرف فرقہ واریت کا ایجنڈا رکھنے والی جماعتیں اور گروہ ہی پنجاب اور سندھ میں جڑیں پکڑ پاتے ہیں ؟ کیا خیبر پختونخوا یا بلوچستان کے تعلق رکھنے والا یک بھی نامی گرامی فرقہ پرست ملا دکھایا جاسکتا ہے ؟ جانتے ہیں اس کا مطلب کیا نکلتا ہے ؟ اس کے سوا نکل بھی کیا سکتا ہے کہ جن صوبوں میں مثبت چلن والی مذہبی سیاسی جماعتوں کی جڑیں مضبوط ہیں وہاں فرقہ واریت جڑ ہی نہیں پکڑ پاتی۔

یہ فتنہ صرف اس زمین پر جڑ پکڑتا ہے جہاں مذکورہ بالا جماعتوں کو گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے جڑ پکڑنے سے روکا گیا ہے اور ذمہ دار اس کے سیکولر دانشور، سیکولر سیاسی جماعتیں اور سیکولر صحافی ہیں۔ سو پھر بھگتیں اپنی لبیک کو بھی، یہ آپ کے ہی کرتوتوں کا تو نتیجہ ہیں!

Related Posts