سی پیک اور گوادر کی ترقی

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیر اعظم کو ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گوادر کی ترقی اورفری زون رکاوٹوں سے دوچار ہے اور ابھی تک عالمی معیار کی بندرگاہ، شہر یا صنعتی مرکز کے آثار نہیں دکھائی دے رہے۔

سی پیک پر کابینہ کمیٹی کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ گوادر نے ابھی تک اپنے وعدے کے مطابق صنعتی مرکز کی پہلی جھلک نہیں دکھائی جو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بہت ضروری ہے۔

پاکستان نے گوادر فری زون میں بغیر کسی وفاقی ادارے کے کسی بھی ریگولیٹری کردار کے چینی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے کئی رعایتیں دی تھیں لیکن ابھی تک اس کے نتائج سامنے نہیں آئے۔گوادر پورٹ اور فری زون کی ترقی وزیراعظم کی اولین ترجیح تھی جو مراعات پر نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں کیونکہ اس سے چین کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

نومبر 2015 میں پاکستان نے گوادر پورٹ کے لیے 40 سالہ لیز کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت پورٹ آپریٹرز کو 91 فیصد ریونیو ملتا ہے اور صرف نو فیصد وفاقی حکومت کو جاتا ہے۔2016 میں ٹیکس فری زون پر تعمیر شروع ہوئی اور 44 چینی کمپنیوں نے دلچسپی ظاہر کی لیکن آج صرف پانچ کام کر رہی ہیں۔

گوادر میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے اب بھی بہت سی رکاوٹیں ہیں جن میں نقل و حمل ، ناکافی پانی اور بجلی کی فراہمی، امن و امان کی مستقل صورت حال ، اجازت ناموںکا حصول اور منصوبوں کے لیے سرمایہ بڑھانا شامل ہیں۔ دیگر صنعتی منصوبوں میں نگرانی کی کمی اور متعلقہ محکموں کی عدم کارکردگی کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے حال ہی میں میڈیا پر زور دیا تھا کہ وہ ففتھ جنریشن ہائبرڈ وارفیئر کے دور میں سی پیک کے خلاف مہم کو ناکام بنا نے میں کردار ادا کرے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا جھوٹی خبروں کا حصہ بن رہا ہے جس سے منصوبے پر پیشرفت متاثر ہورہی ہے۔

وفاقی وزیر کے ریمارکس بلاشبہ درست ہوسکتے ہیں لیکن ان سازشوں کا تعین بھی ہونا چاہیے۔وزیراعظم نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ زمین ، بجلی اور گیس کے کنکشن کے ساتھ ساتھ دیگر ترغیبات دینے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں تاکہ مزید چینی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب ہوں۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت چینی سرمایہ کاروں کے تمام تحفظات دور کرے اور اس منصوبے کے بارے میں تمام معلومات کو عام کرنا بھی ضروری ہے جبکہ وفاقی اداروں کے کردار کو بڑھانا چاہیے تاکہ گوادر کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔

Related Posts