آفات سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا ہوگا

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شدید زلزلہ آیا، جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 5.9 ریکارڈ کی گئی، زلزلے کے نتیجے میں 20افراد جاں بحق اور 300سے زائد زخمی ہوئے، تاہم اس واقعے کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو دینی چاہئے تھی اور مختصر وقت کے لئے اس کو میڈیا پر دکھایا گیا۔

پاک فوج زلزلے سے متاثرہ علاقے میں امداد کی فراہمی اور ریسکیو کے کام میں مصروف ہے، آرمی چیف نے پاک فوج کے دستوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بلوچستان میں سول انتظامیہ کی مدد کریں اور متاثرین کے دکھوں کا مداواں کریں، فوج نے ہمیشہ قومی آفات کے دوران عوام کے بہتر مفاد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وفاقی محکموں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس مشکل گھڑی میں لوگوں کی مدد کے لیے امدادی اشیاء اور طبی امداد فراہم کرنے میں بلوچستان حکومت کی مدد کریں۔ این ڈی ایم اے نے ہرنائی کے دور دراز پہاڑی علاقے میں امدادی سامان روانہ کیا جو زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

ایک دن بعد 2005 میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں آنے والے تباہ کن زلزلے کی 16 ویں برسی تھی۔جس میں 73,000 سے زائد افراد جاں بحق اور 100,000سے زیادہ زخمی ہوئے تھے، جبکہ 2.8 ملین سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے، 2005ء کے زلزلے میں متاثر ہونے والے بہت سے لوگ تاحال اپنی اصل زندگی کی طرف نہیں لوٹ پائے ہیں۔

صدر عارف علوی نے کہا کہ ہم انتہائی کمزور خطے میں رہتے ہیں اور محکموں کو مضبوط کرنے اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ تباہی سے بچاؤ اور تیاری کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، ایسی تباہیوں کے لیے ہماری تیاریوں کا اندازہ لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ہمیں آگ، ہیٹ ویوز، سیلاب اور سائیکلون پیدا کرنے میں موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے کردار کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی تعجب نہیں کہ ہرنائی میں اموات کی تعداد کم تھی۔ یہ ضلع بہت زیادہ غربت اور پسماندگی کا شکار ہے جہاں کے مکین کچے گھروں میں رہتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ادویات نہیں ہیں اور بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، اور شدید زخمیوں کو میلوں دور کوئٹہ منتقل کرنا پڑا۔ گزشتہ سال بتایا گیا تھا کہ کوئٹہ میں 300 عمارتیں خطرے میں ہیں۔ یہ زلزلہ حکام کو مزید آفتوں کے لیے تیار رہنے کے لیے ایک آگاہی ہے۔

Related Posts