کراچی:شہر قائد کے مہنگے ترین ادارے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے)کا ایک اور اسکینڈل سامنے آگیا، آئی بی اے میں ہراسگی کے واقعہ کو سامنے لانے والے ذہین طالب علم کاداخلہ منسوخ کردیا گیا ہے۔
آئی بی اے کے فیس بک پیج پرمحمد جبرائیل نامی طالب علم کو انسٹی ٹیوٹ کے قائم کردہ ’درست طریقے‘ استعمال کرنے کے بجائے واقعے کی رپورٹنگ کے لیے سوشل میڈیا کا انتخاب کرنے پر سزا دی گئی ہے،پیج پر مذید کہا گیا ہے کہ طالب علم کو ’اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنے کے لیے کئی مواقع دیے گئے اور کئی مرتبہ مشاورت کی گئی تاکہ وہ اپنے اعمال کا ازسر نو جائزہ لے سکے، ایسا کرنے میں ناکامی کے بعد ڈسپلنری کمیٹی نے طالب علم کو نکالنے کا فیصلہ کیا کیونکہ آئی بی اے کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کے لیے صفر عدم برداشت کی پالیسی ہے۔
آئی بی اے کی ہیڈ آف مارکیٹنگ اینڈ کمیونی کیشن عائشہ جاوید ہمایوں نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ہمارا وہی موقف ہے جو ہم نے سوشل میڈیا پردیا ہے۔جس میں محمد جبرائیل کی جانب سے اپنی پوسٹ کے ذریعے طلباء کو احتجاج پر ابھارنا، انسٹی ٹیوٹ کے خلاف مظاہر وں کی قیادت اور طلبا اور آئی بی اے انتظامیہ کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا ہے، جس کی وجہ سے انتظامیہ کے اہلکاروں کی سلامتی خطرے میں پڑ ی، یہ باتیں انکوائری کمیٹی نے کہاں سے اخذکر لیں اس کا کوئی جواب عائشہ جاوید نہیں دے سکیں۔
واضح رہے کہ آئی بی اے نے محمد جبرائیل کے خلاف انضباطی کارروائیاں اس وقت شروع کیں جب انہوں نے فیس بک پر ہراسانی کے واقعے کے بارے میں ایک پوسٹ شیئر کی، انہوں نے 25 اگست کو آئی بی اے کے فنانس ڈپارٹمنٹ میں خود وہ واقعہ دیکھا تھا، جس میں انہوں نے ڈپارٹمنٹ کے منیجر کو ایک خاتون ملازم پر چیختے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ’میں تمہیں ساری رات یہاں بٹھا کر رکھوں گا۔بعدازاں آئی بی اے کے عہدیدار کے خلاف پوسٹ کو ہٹانے سے متعلق مطالبے سے طالبعلم نے انکار کر دیا تھا۔
آئی بی اے نے کہا ہے کہ یہ بھی نوٹ کرنا ضروری ہے کہ آئی بی اے انتظامیہ نے (جبرائیل) کی جانب سے ادارے کے اندر مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعے کو اجاگر کرنے کی تعریف کی ہے۔تاہم ہمیں اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ مبینہ طور پر ہراسانی کے واقعہ کو اجاگر کرنے والے طالب علم کا عمل نظم و ضبط کے خلاف تھا، ادارے کی انسداد ہراسانی کمیٹی آئی بی اے اور ایچ ای سی کے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار کے مطابق کیس کی تحقیقات کر رہی ہے، ہم سننے کی بنیاد پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے ہمیشہ تحقیق کرتے ہیں۔
آئی بی اے کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا اور طلبہ برادری نے شدید ردعمل کا اظہار کیا، لوگوں نے جبرائیل کے حق میں موقف اختیار کیا ہے۔طلبہ کا کہنا ہے کہ شرم کی بات ہے کہ (آئی بی اے کراچی) نے ایک طالب علم کو محض اس لیے بے دخل کردیا کیونکہ انہوں نے ہراسانی کے واقعہ کو اجاگر کیا۔
منگل کی رات محمد جبرائیل نے فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ ’آج کے ڈی سی کے رویے سے اندازہ ہوا ہے کہ وہ مجھے نکال دیں گے، میں جانتا ہوں کہ یہ لوگ میرے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے جب وہ مجھے نکال دیں گے کیونکہ ہر کوئی اپنے مستقبل اور فلاح و بہبود کی فکر کرے گا، پھر بھی، میں اپنے تمام حواس کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اگر میری جان بھی جائے تب بھی معافی نہیں مانگوں گا، میں منافق نہیں ہو سکتا، ایسا شخص جس کے قول و فعل میں فرق ہو اور وہ شخص جو اس کی حمایت کرنے والے لوگوں کی تعداد کو دیکھ کر فیصلہ کرے، میں وہ شخص نہیں بن سکتا‘۔
آئی بی اے کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کیے گئے مراسلے میں کہا گیا کہ اگر طالبعلم کو فیصلے کے بارے میں کوئی تحفظات ہیں تو وہ تحریری طور پر رجسٹرار آفس اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر آفس میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست داخل کر سکتا ہے۔
معلوم رہے کہ محمد جبرائیل کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت سے ہے، جس کو آئی بی اے نے مکمل اسکالرشپ پر داخلہ دیا تھا، وہ آئی ای اے کا ایک بہترین طالب علم تصور کیا جاتا ہے۔محمد جبرائیل اپنی تعلیم تقریبا مکمل کر چکا ہے اس کی فراغت اور گریجویشن میں دو ماہ رہ گئے ہیں ۔آئی بی اے انتظامیہ نے محمد جبرائیل کو آئی بی اے کے ہاسٹل سے اپنا سامان اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دی ہے۔
ادھرآئی بی اے کی انضباطی کمیٹی نے محمد جبرائیل پر بے بنیاد الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ محمد جبرائیل نے آئی بی اے کے فنانس ڈپارٹمنٹ اور ملازمین کے علاوہ سینئر پروفیسرز کو مختلف فورمز پر بدنام کیا ہے اور ساتھ ہی طلبہ کو احتجاج کے لیے اکسایا اور انسٹی ٹیوٹ کے خلاف مظاہروں کی قیادت بھی کی ہے اور طلبا اور آئی بی اے انتظامیہ کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا ہے، جس کی وجہ سے انتظامیہ کے اہلکاروں کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی۔
ادھر ان الزامات کے جواب میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر محمد جبرائیل نے یہ سب بے ضابطگیاں اور خلاف ورزیاں کی ہیں تو اس وقت محمد جبرائیل کے خلاف ضابطے کی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ اب یہ کارروائی کرنے کا مقصد واضح ہو رہا ہے کہ آئی بی اے کے کوئی بھی ٹھوس وجہ نہیں ہے اور محض کردار کشی کرکے طلب علم کو نکال کر اصل واقعہ سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔
ایم ایم نیوز نے 7جون 2021کو آئی بی اے کے طلبہ کا منشیات اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی رپورٹ کی تھی،والدین کی جانب سے باقاعدہ آئی بی اے انتظامیہ کو تحریری درخواست دی گئی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ان کی بیٹی اور اس کے کلاس فیلوز مہلک نشے میں مبتلا ہیں ۔لہذا ان کی بیٹی کا داخلہ ختم کیا جائے اور اس کے کلاس فیلو ز کے والدین کو بلا کر متنبہ کیا جائے اور ان کو بھی وارننگ دی جائے۔
اس سے قبل 14فروری 2021کو آئی بی اے کے 3طلبہ نے جامعہ کراچی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کے ایک استاد مصطفیٰ حیدر کو زدکوب کیا تھا، اور ان سے بدتمیزی اور ہاتھا پائی کی تھی، جس کے بعد جامعہ کراچی کے استاد نے سیکورٹی گارڈز کو طلب کیا، سیکورٹی گارڈزنے بھی مصطفیٰ حیدر کو تشدد کا نشانہ بنایاتھا۔ جس کے بعد جامعہ کراچی کے اساتذہ نے باقاعدہ تدریسی سرگرمیاں معطل کرکے آئی بی اے کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔
مزید پڑھیں: نبوت کی دعویدارخاتون اسکول پرنسپل کو سزائے موت سنا دی گئی