پاکستان اور غیرمحفوظ خواتین: کیا مردوں پر عوامی مقامات پر پابندی لگنی چاہیے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان اور غیرمحفوظ خواتین: کیا مردوں پر عوامی مقامات پر پابندی لگنی چاہیے؟
پاکستان اور غیرمحفوظ خواتین: کیا مردوں پر عوامی مقامات پر پابندی لگنی چاہیے؟

چند سال قبل لندن میں قائم ’تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن‘ نے پاکستان کو خواتین کے لیے دنیا کا چھٹا خطرناک ملک قرار دیا تھا۔ پاکستان میں زہریلی بدگمانی کو لاہور کی سڑکوں پر خواتین کو سرعام ہراساں کیے جانے کے واقعات نے فاؤنڈیشن کے خدشے کو سچ ثابت کردیا ہے۔ سڑکوں پر واقعات ہوتے رہے مگر کسی نے ان خواتین کو  بچانے کی کوشش نہیں۔ عائشہ اکرم کے واقعے کے بعد ، یہ کیس پاکستان میں خواتین کی حفاظت کے حوالے سے ایک خطرناک ٹیسٹ کیس ہے۔

بختاور بھٹو زرداری جیسی مشہور شخصیات سمیت بہت سے لوگ اب خواتین سے احتیاطی تدابیر کے طور پر مردوں کو عوامی مقامات پر داخل ہونے سے روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس پر عمل درآمد سے کیا پاکستان میں ہراسانی کے واقعات میں کمی آئے گی؟

ماہ اگست کے واقعات

مینار پاکستان کا واقعہ ہمارے لیے آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھا ، جہاں یوم آزادی کے موقع پر ’بڑے پیمانے پر استحصال ‘ ہوا۔ 400 مردوں کے ایک ہجوم نے ایک خاتون ٹک ٹاکر کو سرعام ہراساں کیا ، ان پر حملہ کیے ، ان کی تذلیل کی۔ تاہم واقعے کے بعد لوگوں کی  بڑی تعداد نے الٹا ٹک ٹاکر عائشہ اکرم پر الزامات لگائے کہ انہوں نے لوگوں کو وہاں پر خود مدعو کیا تھا۔ مختصر یہ کہ زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون پر الزامات دینے کا مقصد کیس کو ختم کرانا مقصود ہے۔

ایک اور واقعہ اسی دن یعنی یوم آزادی پر پیش آیا جب ایک خاتون ایک بچے کے ساتھ پارک میں جارہی تھی کہ نوجوانوں کے ایک گروہ کی جانب سے اسے سرعام ہراساں کیا گیا۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ عورت ایک بچہ لے کر جا رہی تھی ، سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو ڈھانپے ہوئے تھی ، اور ٹک ٹاکر بھی نہیں تھی ، پھر بھی اسے عوامی طور پر ہراساں کیا گیا۔

قوم ابھی ان واقعات کے غم سے باہر نہیں نکلی تھی کہ ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جس میں دو خواتین جو نامناسب لباس میں نہیں تھیں ، ٹک ٹاکر نہیں تھیں ، ایک بچے کے ساتھ چنگچی رکشے کے پچھلے حصے میں بیٹھی سفر کررہی تھیں ، ہراساں کی گئیں، لوگوں کی جانب سے فقرے کسے گئے، اور اس لمحے کو متعدد نوجوانوں کی جانب سے شوٹ کیا گیا۔ مگر کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ عوامی سطح پر ہونے والے واقعات کو روک سکے۔

بنیادی وجہ

یہ وہ چند کیس ہیں جو نظروں کے سامنے آئے اور جن کو رپورٹ کیا گیا، لیکن روزانہ کی بنیاد پر بہت سے کیسز ایسے بھی ہوتے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔ کیوں کہ جب بھی ہراسانی کا، گھریلو تشدد کا یا جنسی زیادتی کا کوئی کیس رپورٹ ہوتا ہے ، تو دیکھا یہ گیا ہے کہ خواتین اور مردوں کی جانب سے مورد الزام ہمیشہ خاتون کو ٹھہرا دیا جاتا ہے مگر کوئی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔

وہ اکیلی باہر کیوں گئی تھی؟ وہ کیسے کپڑے پہنے ہوئے تھی؟ وہ ایک ٹک ٹاکر ہے، وہ اور کیا توقع کر رہی تھی؟ اسے کسی کے ساتھ سفر کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح جنسی زیادتی پر مبنی واقعات نئی بحثوں کو جنم دیتے ہیں مگر حل کوئی نہیں نکالا جاتا ہے۔

بنیادی وجہ کا حل۔

حال ہی میں بختاور بھٹو زرداری نے عوامی سطح پر ہراساں کرنے کے واقعات کو روکنے کا ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام عوامی مقامات پر مردوں کے داخلے پر مکمل طور پر پابندی لگا دی جائے۔ ان کا خیال ہے کہ جب پارکس میں مرد نہیں ہوں گے تو خواتین کو پریشانی نہیں اٹھانا پڑے گی۔

بختاور زرداری کا کہنا ہے کہ مرد کو اپنی بیوی ، بہن ، یا ماں کے ساتھ عوامی مقامات پر آزادانہ گھومنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہ واحد راستہ ہے جس سے خواتین خود کو محفوظ محسوس کر سکتی ہیں۔

کیا ‘مردوں’ کے خیال پر یہ پابندی پائیدار ہو گی؟

یہ خیال ذہنوں میں سحر تو پیدا کرسکتا ہے مگر یہ بات عملی طور پر قابل عمل نہیں ہے۔  کسی بھی صنف پر پابندی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔

بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں خواتین گھروں میں رہتی ہیں، مگر پھر بھی جنسی زیادتی، گھریلو تشدد اور ہراسگی کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔ اسی طرح مردوں پر پابندی سے غیرمحفوظ خواتین کی مدد ممکن نہیں ہے۔

کسی مسئلے سے نمٹنا اور اس کی حقیقت کو تسلیم کرنا بہت سے مسائل کو کم کرسکتا ہے ۔ مگر کسی مسئلے کو ہیش ٹیگ بنا کر ٹوئٹر پر دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ‘NotAllMen’ کے ساتھ ٹرینڈ کرنے سے بیکار کی بحث جنم لے گی اور لوگوں کے درمیان غم و غصے کا باعث بنے گی۔

عوام میں شعور اجاگر کرنے کےلیے ایسے مسئلوں پر ایک مثبت بحث کی ضرورت ہے تاکہ اس کے نتائج بھی مثبت آسکیں۔ ورنہ بہت سی عائشہ اکرم اور نور مقدم بیٹھی ہیں جو اپنے بدقسمت مستقبل سے لاعلم ہیں۔

Related Posts