بے شمار غوروفکر کرنے والے اذہان نے طالبان کی عسکری فتح اور چند ہفتوں میں کابل پر تیز ترین قبضے پر دلچسپ سوالات کیے ہیں جو دنیا کے بڑے تھنک ٹینکس اور عسکری منصوبہ سازوں، امریکی محکمۂ خارجہ، پینٹاگون اور امریکی صدر جو بائیڈن کی پیشگوئیوں کے خلاف تھا۔افغانستان کے مسئلے پر پاکستان اپنے اس دانش مندانہ بیانیے پرصدر بش سے لے کر جو بائیڈن تک قائم رہا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی یا عسکری حل نہیں ہے، اس مسئلے کو سیاسی بنیادوں پر مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کیا جانا چاہئے جس میں افغان خود شریک ہوں تاہم یہ نصیحت امریکا بہادر کو ایک آنکھ نہ بھائی اور امریکی عسکری اداروں نے اسے بری طرح نظر انداز کرتے ہوئے بھارت جیسے ساتھیوں کے ذریعے افغانستان میں اثر رسوخ قائم کرنے کیلئے فوجی کارروائی جاری رکھی جس کا نتیجہ تباہ کن نکلا۔ پاکستان نے بھی اس معاملے پر عقلمندانہ تدبر کا مظاہرہ کیا اور پھر امریکی فوجی کمان اور سیاسی قیادت ایک ساتھ گھبراہٹ میں آدھی رات کو افغانستان میں اپنی سب سے بڑی چوکی بگرام ائیر بیس سے بھاگ نکلی۔بگرام ائیر بیس سے بغیر کوئی اطلاع کیے اور مقامی افغان بیس کمانڈر کو بتائے بغیر امریکا نے فوج نکال لی اور کابل کے اردگرد ایک وسیع دائرے میں افغان فوج کے دستوں کی لڑائی ہوئی جس کے بعد سے لے کر کابل کے زوال تک جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا جو افغانستان میں 20 سالہ بے مقصد جنگ میں امریکا کی پر عزم جنگجو گروہ طالبان کے ہاتھوں شکست کا مظہر ہے۔
حالیہ تحریر طالبان کی افغانستان پر تیز ترین فتح کے 4 سوالات کا احاطہ کرتی ہے۔سوال یہ ہے کہ 20 سالہ طویل جنگ کے دوران امریکی افواج طالبان جنگجوؤں کا مقابلہ کرنے میں کیوں ناکام ہوئیں؟ یہ تبدیلی زیادہ خون بہائے بغیر کیسے آئی اور طالبان نے کسی مزاحمت کے بغیر کابل پر قبضہ کیسے کیا؟ ان کی فنڈنگ کون کررہا تھا اور وہ اس طرح کیسے منظم ہوئے کہ اقتدار پر قابض ہوسکیں؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب طالبان عالمی برادری سے تعلقات کیسے قائم کریں گے اور ملک کی منصوبہ بندی پر مبنی اہمیت کیسے اجاگر ہوگی جو درحقیقت بڑے پر مغز سوالات ہیں۔
پہلے میں ایک اہم سطر کے ذریعے تھوڑی سی وضاحت کردوں کہ امریکا نے افغانستان میں 20 سالہ ناقص عسکری حکمتِ عملی، سیاسی رسہ کشی، جغرافیائی انجینئرنگ اور منشیات فروشوں کے ساتھ مفاہمت کے باعث شکست کھائی۔
طویل المدت خوف یہ ہے کہ اگر امریکا کابل میں مزید فوج لے جانے اور رکھنے کے فیصلے پر قائم رہا تو آگے آنے والی جنگ میں برطانوی ایکسپیڈیشنری فورس جیسی صورتحال کا سامنا کرسکتا ہے جبکہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ مرکزی امریکی فوج کو ہٹالیا گیا۔ اب بھی طالبان قابلِ ذکر عسکری دانشمندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ پسپائی کو پسِ پشت نہ ڈالا جاسکے تاہم افغانوں کا صبر کا پیمانہ اچانک لبریز ہوسکتا ہے۔ کابل ائیرپورٹ پر 3 جوانوں اور امریکی فوج کے ہاتھوں 5 مزید کی ہلاکت پر میڈیا کی بات چیت کچھ اس طرح رہی کہ جیسے وہ افغان لوگ امریکا کے پالتو تھے جنہیں پالا گیا اور پھر گولیوں کی برسات سے مار ڈالا گیا تاہم اس آتش فشاں کے پھٹنے سے تباہ کن اثرات مدتوں یاد رہ سکتے ہیں۔
اگلا سوال طالبان کے مستقبل کا ہے۔ دراصل امریکی کمانڈرز، میڈیا اور تھنک ٹینکس نے اپنی ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کیلئے یہ ڈرامہ تخلیق کیا ہے۔ جنہیں وہ طالبان کہہ رہے ہیں وہ افغانوں کی آبادی ہے جہاں طالبان نے 2010 کے بعد اقتدار کا مزہ چکھنا شروع کیا۔ تمام امریکی حملے فضاؤں پر بمباری میں ملوث پائے گئے۔ طالبان نے طویل عرصے تک جدید ترین ہتھیار رکھنے والی فوج کے خلاف گوریلا وار لڑی۔ طالبان کی مزاحمت پر کوئی اثرات مرتب کیے بغیر امریکی فوج اور سیاسی کٹھ پتلیوں نے ایک ناقابلِ معافی جرم کیا جو افغانستان سے انخلاء کے وقت سرپٹ بھاگنا تھا۔
طالبان نے ملک کے دیہی علاقوں پر کنٹرول جاری رکھا اور ساتھی افغان عوام کو سمجھاتے رہے کہ اِس بار ہم وہ نہیں ہیں۔ ہم مختلف لوگ ہیں جو برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ جب یہ سوچ پروان چڑھی تو طالبان نے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور سب سے پہلے غیر پشتون علاقوں پر قبضہ کیا جن میں جزجان، قندوز، مزار شریف اور کابل شامل ہیں جن میں کم سے کم خون بہانے پر توجہ دی گئی۔ اب آپ طالبان کا سیاسی تدبر دیکھئے تو انہوں نے اسماعیل خان جیسی اہم شخصیات کے سرنڈر کرنے پر انہیں کس عزت و احترام سے اپنے پاس رکھا اور بدلے کے قتل اور لوٹ مار کو روکا جو ان کے نچلی سطح کے جنگجو ماضی میں کیا کرتے تھے۔ سب سے زیادہ غیر معمولی بات یہ ہے کہ انہوں نے عام معافی کا اعلان کردیا اور خواتین کو عزت و احترام سے حقوق دینے کی بات کی۔ اسی طرح انہوں نے اشرف غنی، امر اللہ صالح، حمد اللہ محب اور دیگر ان جیسے افراد کیلئے بھاگنے کا راستہ کھلا رکھا اور انہیں آنجہانی نجیب اللہ کی طرح پر تشدد کارروائی میں مار نہیں ڈالا گیا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو طالبان کو مکمل طور پر ایک مختلف طبقہ ظاہر کرتی ہیں جنہیں امریکا نے پرانے اسکرپٹ کے ذریعے پڑھنے کی فاش غلطی کرڈالی اور بری طرح مار بھی کھائی۔
یہاں ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ طالبان کو فنڈنگ کہاں سے ہوئی؟ ان پر پیسہ کس نے لگایا؟ جس پر امریکا اور مغربی میڈیا اور ایڈمنسٹریشن ایک ساتھ ذرائع بتانے سے قاصر ہیں۔ طالبان نے افغانستان کے اندرونی علاقوں پر 2010 میں کنٹرول حاصل کرنا شروع کیا اور بڑی تیزی سے اسے توسیع دی۔ یہ کنٹرول انہیں امریکا کی کٹھ پتلی حکومت کے لگائے گئے ٹیکسز سے بچاتا رہا جس سے بڑی مقدار میں زرِ مبادلہ حاصل ہوا کیونکہ لاگت انتہائی کم تھی۔ ایک امکان یہ ہے کہ بیرونی قوتوں نے بھی طالبان کی مدد کی ہو کیونکہ امریکا افغانستان سمیت خطے بھر میں کوئی پسندیدہ طاقت نہیں سمجھا جاتا اور ایشیا میں تو امریکا کو بیرونی مداخلت کار ہی گردانا جاتا ہے۔
ملک کو بچانے کی جنگ کے دوران افغان فوج بری طرح شکت کھا گئی۔ جس فوج کو امریکا نے جدید ترین ہتھیار دئیے، تربیت فراہم کی، تنخواہیں دیں اور اربوں ڈالرز خرچ کیے، وہ قبضہ کرنے والوں کے خلاف ٹک نہ سکی۔ جب خطے پر تباہ کن جنگ کے اثرات کی بات آتی ہے تو اخلاقی طور پر یہ ایک گھٹیا بات ہے کہ اخراجات کے تخمینے لگائے جائیں۔ اس لیے امریکا عالمی برادری سے تعلقات کے اعلیٰ تر معیارات کو نہیں پہنچ پایا۔ دراصل افغان فوجی اچھی طرح جانتے تھے کہ طالبان اور خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ کے کیا اثرات و مضمرات ہوسکتے ہیں۔ امریکا اچانک بھاگ کھڑا ہوا اور اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کسی بھی وقت فرار ہونے کیلئے پر تول رہی تھی جس کا فوج کو اندازہ تھا۔ ایک عام فوجی کبھی پیسے کیلئے نہیں لڑتا کیونکہ لڑائی کیلئے ایک مضبوط و مستحکم جذبے اور عزم و ہمت کی ضرورت ہوتی ہے جو افغان مسلح افواج میں مفقود رہا، اس لیے افغان طالبان کے کابل میں داخل ہونے سے قبل ہی ان کی بہادری ہوا ہوچکی تھی۔ طالبان یہ جانتے تھے اور اس لیے انتہائی سکون سے کابل پر قبضہ کر لیا۔
آخری سوال یہ ہے کہ طالبان حکومت اب عالمی برادری سے کیسے تعلقات قائم کرے گی؟ نئی حکومت کو اس محاذ پر کیا مشکلات ہوں گی؟ تو طالبان نے امریکا اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو مذاکرات کی میز پر سالہا سال بٹھائے رکھا اور ہمیشہ خود ایک قدم آگے رہے۔ روسی اور چینی سفارت کار طالبان قیادت سے جلد ملاقات کریں گے اور یورپی یونین نے بھی اعلان کیا ہے کہ طالبان سے تعلقات قائم کیے جائیں گے جو قبضے کے کچھ ہی دنوں میں طالبان کی پریس کانفرنسز، ٹی وی انٹرویوز اور کچھ بے حد خوبصورت بیانات کے باعث سامنے آنے والا فیصلہ ہے۔ طالبان کی عسکری فتح اور سیاسی و سماجی معیار نے ان کے بد ترین ناقدین کو بھی حیران کردیا ہے۔ طالبان نے نئے امریکی صدر سے متعلق بیانات مسترد کردئیے جیسا کہ توقع تھی۔ ہر وہ واقعہ جو دنیا کو متاثر کرتا ہے، ہمیں اس کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
امریکا اپنے ہی سایوں کے خلاف جنگ لڑتا رہا اور جب افغانستان میں ہار امریکی فوج کا مقدر بنی تو وہ جنگ امریکا نے اپنے آپ سے ہاری اور جب انخلاء ہوا تو اسے افغانستان سے امریکی فوج اور شہریوں کا پر وقار انخلاء نہیں کہا جاسکتا۔ افغانستان میں تو ہرگز نہیں۔