انڈسٹری آف اسٹریٹ کرائم

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 جی !آپ نے بالکل صحیح عنوان پڑھا ہے۔ہمیں یہ انڈسٹری ڈھونڈنے پر پتہ لگا کہ یہ دیکھی ان دیکھی انڈسٹری ہے، مطلب یہ ہے اسکے جنم میں نظام پولیس، نظام عدلیہ موجودہ وسائل بابت انسداد جرائم، معاشی صورتحال، بیروزگاری، دین سے دوری، اور مصنوعی چمکیلی زندگی کی دوڑ میں برتری حاصل کرنا اور دیگر عوامل شامل ہیں۔

بحیثیت پولیس آفیسر جرائم کے انسداد کے لئے ایک پولیس آفیسر کی ذمہ داریاں ایک طرف مگر پولیس کے پاس دیگر محکموں کی طرح کوئی جادو کی چھڑی بھی تو نہیں۔پاکستان میں عموماً اور کراچی میں خصوصاً بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کرنے والے یہ پولیس کے جوان و افسران اپنے فرائض میں ناکام نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہر دن اسکی روک تھام کے لئے مرحلہ وار تیار رہتے ہیں جسکا ثبوت دوران انسداد جرائم میں پولیس جوانوں کی شہادتیں ہیں۔

پولیس اہلکار و افسران بھی سول سوسائٹی کا حصہ ہیں اور کبھی کبھی اس صورتحال سے خود بھی متاثر ہورہے ہوتے ہیں، سول سوسائٹی اور پولیس ہر پل اس صورتحال کے خلاف اپنی اپنی سطح پر اقدامات کرتے ہیں، دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے میگا سٹی کا موازنہ کرنے پر پتہ لگتا ہے کہ جو وسائل و ٹیکنالوجی اور مدد کرتی سول سوسائٹی وہاں کی پولیس کو حاصل ہے اس کے برعکس وہاں کے جرائم کی شرح ہم سے کہیں زیادہ ہے، جبکہ ہم ان جیسے وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی جرائم کی شرح میں بہتر کمی لاتے ہیں۔

یہاں جسکا جو کام ہے وہ اس میں مگن ہے،پولیس کا کام مجرموں کو پکڑنا ہے پکڑ رہی ہےوکیل کا کام آزاد کرانا ہے وہ آزاد کرا رہا ہےعدلیہ کا کام آزاد کرنا و سزا دینا ہے، عدلیہ کررہی ہے،پھر خرابی کہاں ہے۔۔۔؟خرابی ہے تناسب سزا میں، 1فیصد، سزا 99فیصد،رہائی ذمہ دار کون۔۔۔۔؟جواب : مکمل قانونی اسٹرکچر بشمول پولیس پروسیکیوشن و عدم گواہان سول سوسائٹی۔

اس طرح آپ کے دنیا کے کسی کونے سے قابل جوان و افسران امپورٹ کر کے دیکھ لیں شاید کچھ تبدیلی آجائے لیکن اسوقت تک ممکن نہیں جب تک سول سوسائٹی کا جرائم کے خلاف گواہی کا تناسب نہ بڑھے،
مسئلہ نہ اہلیت کا نہ ہی بدنیتی اور کرپشن کا ہے بلکہ مسئلہ تو اس بوسیدہ نظام ہے جو کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے عین منافی ہے بلکہ مکمل طور پر ناکام ہے۔یہاں کچھ نازک معاملات ہے جن پر میں شاید صحافی حضرات کی طرح قلم دراز نہیں ہوسکتا مگر اشارہ کرتا چلوں گا۔

اب اصل عنوان کی طرف آؤں کہ یہ اسٹریٹ کرائم انڈسٹری کیوں ہے۔ جی ہاں بحیثیت پولیس آفیسر میرے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ اسٹریٹ کریمنل کو جب گرفتار کرو تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے بھی دسیوں بار جھوٹے سچے مقدمے میں گرفتار ہوچکا ہے۔ پولیس بڑے فخر سے بتاتی ہے کہ ملزم کا یہ ریکارڈ اتنا ریکارڈ بلکہ پولیس تو کوشش ہی یہی کرتی ہے کہ ریکارڈ یافتہ ملزم کو گرفتار کرے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملزم اتنا خطرناک اور ریکارڈ یافتہ ہے تو شہر بھر میں دندناتا کیوں پھررہا ہے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں۔یہاں جس ملزم کا جتنا بڑا ریکارڈ ہوتا ہے اس کا مطلب یہ پیشہ ور ملزم اور بار بار گرفتار ہوکر جیل جاتا ہے اور پھر بیل لیکر یا بری ہوکر واپس آجاتا ہے اور پھر دوبارہ واردات کرنا شروع کر دیتا ہے۔

مطلب یہ کہ ان کریمنلز نے اسٹریٹ کرائم کو نفع بخش پیشہ بنایا ہوا ہے جو ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر گیا ہے انہیں پتہ ہے کہ یہ بار بار گرفتار ہوکر بھی دوبارہ بیل یا بری ہوکر واپس آجائیں گے اس لئیے ان کے دل سے قانون اور سزاؤں کا خوف ختم ہوچکا ہے۔ کچھ کریمنلز تو نسل در نسل یہ پیشہ منتقل کر رہے ہیں یعنی پہلے خود کریمنل تھے اب انکی اولادیں بھی اس پیشہ سے وابستہ ہیں۔کیا پولیس اس انڈسٹری کو ختم کرسکتی ہے کیا پولیس کی روایتی کاروائی سے اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان کو لگام دی جاسکتی ہے۔ہرگز نہیں۔

اب اگر ذرا باریک بینی سے موجودہ نظام کا جائزہ لیں تو ایک پولیس آفیسر کو جب ایس ایچ او کی کرسی ملتی ہے تو اس کی کوشش بھی یہی ہوتی ہے اور افسران بالا کا تقاضا بھی یہی ہوتا کہ ذیادہ سے ذیادہ مقدمات درج کرے اور ملزمان گرفتار کرنے میں ہی اسکی کرسی کی بقا ہے ورنہ کرسی ہاتھ سے نکل جائے گی۔

اب ان حالات میں ایس ایچ او جھوٹے سچے مقدمات کرکے اپنی سیٹ پکی کرتا رہتا ہے مگر اصل بگاڑ کا سدباب کون کرے۔اس نظام کی بوسیدگی اور بے بسی کی یہ حالت ہے کہ میں نے افسران کو بولتے سنا کہ ان پیشہ ور ملزمان کو ذیادہ سے ذیادہ جیل اور عدالتوں کی طرف بھیجو گوکہ جھوٹے سچے مقدمات کرنے پڑے کسی طرح کرائم گراف تو نیچے آئے کیونکہ جتنے دن یہ ملزمان شہروں میں رہیں گے آذاد گھومیں گے واردات کرتے رہیں گے اور پولیس کے سر کا درد بنتے رہیں گے۔کیا یہ اپروچ درست ہے،ہر گز نہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس بوسیدہ نظام کی ازسرنوع تبدیلی ناگزیر ہے بلکہ ایسے نظام کی ضرورت ہے جو جدید تقاضوں کے عین مطابق بھی ہو۔ اس میں قانون اور عدالتی ٹرائل سے لیکر پولیس کے انتظامی ڈھانچوں اور طریقہ کار میں بھی یکسر تبدیلی سے ہی انڈسٹری آف اسٹریٹ کرائم کا خاتمہ ممکن ہے۔

Related Posts