امیر، غریب اور سیاست

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہمارے معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کے باعث معاشرہ بہت تیزی سے تقسیم ہورہا ہے، پاکستان میں اشرافیہ طبقہ امیر تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ عام آدمی زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمت اور پریشانیوں کو پورا کرنے پر پریشان ہے۔ شروع سے ہی ہمارے بنیادی مسائل خوراک، لباس اور رہائش کی فراہمی جوں کے توں ہیں، جبکہ حکمرانوں کی جانب سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ عوام کو کھوکھلے خواب دکھائے جاتے ہیں۔

حکومت صرف ان ترقیاتی منصوبوں پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جس سے اس کے ذاتی مفادات جڑے ہوں، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سڑکیں ہر وقت بن رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے شہروں میں سڑکوں کا جال بچھانے کی ضرورت ہے لیکن حکام کو ایسے منصوبوں میں ذاتی دلچسپی ہے۔ روڈ پروجیکٹ پسندیدہ ہیں کیونکہ اس میں انہیں بڑے پیمانے پر کمیشن حاصل ہوتا ہے اور تیزی سے پیسہ بنایا جاتا ہے، اس طرح، ہر سال آپ دیکھیں گے کہ پرانی سڑکیں کھودی گئی ہیں اور نئی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں جس کے باعث مسافروں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔

حکومت امیروں کو فائدہ پہنچانے والی پالیسیاں بناتی ہے، جس سے انہیں صنعتیں اور کاروبار قائم کرنے اور بھاری نرخوں پر مصنوعات فروخت کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ یہ امیر تاجر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ آپ کبھی بھی حکومت کو درآمدی ڈیوٹی کم کرتے نہیں دیکھیں گے اور ہم مقامی طور پر بنائی گئی مہنگی چیزیں خریدنے پر مجبور ہیں، مثال کے طور پر کاریں۔ اس کے باوجود حکومت آٹوموبائل، سیمنٹ، فارما اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کی ترقی پر فخر کرتی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ معیشت مضبوط ہے،لیکن اس کا حقیقی اثر کبھی ظاہر نہیں ہوا۔ ان شعبوں کے مالکان غریبوں کا استحصال کر کے دن بہ دن امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔

شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ حکومت ان شعبوں میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتی؟ اگر ایسا ہوا توپھر اشرافیہ کیسے کچھ بیچ پائے گی؟ حکومت کسی پروڈکٹ کی اصل قیمت جانتی ہے لیکن ہماری صنعتوں نے ہمیشہ بھاری سبسڈی، ٹیکس میں کمی اور دیگر مراعات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ فوائد صارفین کو کبھی نہیں دیے جاتے۔ شاید اگر حکومت غیر ضروری سبسڈی دینے کے بجائے اپنی کمپنیاں قائم کرے تو لوگ چیزیں سستی کریں گے اور ان کے حالات زندگی بدل جائیں گے۔

حکومتی مداخلت اور نگرانی کے فقدان نے نجی شعبے کو آزاد چھوڑ دیا ہے، تعلیمی شعبے کو مہنگا ترین کردیا گیا ہے، حکومت کبھی فلور ملز نہیں لگائے گی بلکہ ہر سال لاکھوں ٹن چینی درآمد کرے گی۔ ہم نے مقامی طور پر تیار کردہ کار یں نہیں بنائیں، انہیں درآمد کرتے ہیں۔ حکومت کوئی فارما کمپنی نہیں بنائے گی بلکہ ہمیں زیادہ قیمتوں خریدی گئی ادویات مہنگے داموں فروخت کرے گی۔ حکومت کبھی سیمنٹ فرم نہیں بنائے گی اور نہ ہی تعمیراتی شعبے کو ترقی دے گی اور اس کے باعث آپ کے پاس مہنگے گھر خریدنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی یہ ٹرانسپورٹ سیکٹر کی تعمیر کے لئے اقدامات کرے گی، تاکہ ہم خستہ حال بسوں میں سفر کرتے رہیں اور نجی شعبہ ہمارا استحصال کرتا رہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ امیر وہ ہیں جو ہم پر حکومت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری ہر چیز پر چند بااثر خاندانوں کا قبضہ ہے جو چھوٹے سرمایہ کاروں کو کچل دیتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے عملی طور پر عوام کے سہولتیں فراہم کرے تاکہ عوام غربت کی چکی میں پسے ہوئے عوام اپنی زندگیاں بہتر طور پر گزار سکیں۔

Related Posts