زندگی میں کچھ خطرات ہمیں اس کامیابی کو حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں جو ہم اپنی زندگی میں چاہتے ہیں۔ آئیے ان میں سے چند خطرات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ان خطرات سے کیسے بچا جائے۔
پہلا خطرہ کمال حاصل کرنے کا غیر ضروری جنون ہے۔ بعض اوقات ، ہم ہر چیز پر حد سے زیادہ غور کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر ہم کچھ صحیح نہیں کر سکتے تو کچھ کرنا ہی نہیں چاہئے، یا اگر ہم فلاں سے بہتر کچھ نہیں کر سکتے تو کوئی کام کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کی کامل ترین تخلیق یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار عصر کی نماز میں چار کی بجائے پانچ رکعتیں پڑھ لیں۔ نماز کے بعد آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو گھبرایا ہوا دیکھا اور ایک شخص نے ہمت کرکے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کیا عصر میں 4 کی جگہ 5 رکعتیں پڑھنا ہوں گی؟ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی اقتداء ہی اسلام کا دوسرا نام ہے۔ آپ ﷺ کے پیچھے صحابہ کرام کی جماعت نے بھی 5 رکعتیں ہی پڑھی تھیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں اور بھول جاتا ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو۔شاید یہ بات کم ہی لوگوں کے علم میں ہوگی کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ 2 نمازیں قریش کے ساتھ جنگی حالات کے باعث ادا نہ فرما سکے۔
اس لیے کمال حاصل کرنے کے جنون کے حوالے سے ہم نے جو سبق سیکھا وہ یہ ہے کہ کوشش و کاوش میں ہمیشہ لگے رہنا چاہئے۔ اگر کوئی کام شروع کرنے کیلئے اپنی ذات کی تکمیل، علم یا بہترین حالات کا انتظار جاری رکھا جائے تو کامیابی کا حصول ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ چیلنز کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی سوچ کو وسیع کریں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے آگے بڑھیں تو کامیابی حاصل ہوسکے گی۔
کامیابی کو لاحق دوسرا خطرہ اپنی ذات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور فخر و غرور کا تصور ہے۔ کئی بار ہم یہ دعویٰ کر بیٹھتے ہیں کہ ہماری کامیابی صرف ہماری ہی کاوشوں کی بدولت ہے اور کامیابی کے حصول میں دوسروں کی معاونت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی نعمتیں اور مواقع تسلیم کرنے کی بجائے نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ الفاظ میں یعنی انا اور فخر و غرور کے ہیں۔ یہ وہ اصطلاح ہے جسے استعمال کرکے شیطان ہمیں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے بتائے گئے راستے سے بھٹکانا چاہتا ہے۔
دراصل ہم وہ نہیں جو خود کو ہم سمجھتے ہیں اور ہماری کامیابیاں بھی صرف ہماری کاوشوں کا نتیجہ نہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنا ہوگا کہ وہی سب سے بڑا اور سب سے طاقتور ہستی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں طاقت اور توانائی سے نوازتا ہے چاہے ہم کتنے ہی ذہین اور محنتی کیوں نہ ہوں۔ یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ہماری کامیابی میں دوسرے انسانوں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ذات کی رضا شامل ہے اور جو بھی تنِ تنہا خود کو طاقتور سمجھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے، ایک روز ناکام ہوجاتا ہے۔
اگر تنہا کوشش کرنا ہی کامیابی کا فارمولا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کو صحابہ یا کسی ساتھی اور ہمراہی کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ آپ ﷺ کے ساتھ غار میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے جو مشکل وقت میں حضور ﷺ کے ساتھ رہے، اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طاقت، عثمانِ غنی کی دولت یا سیدنا علی کی حکمت، جرات اور بہادری، سب آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ بلا شبہ رسول اللہ ﷺ تنِ تنہا بھی لشکروں سے لڑ سکتے تھے تاہم سنتِ نبوی ﷺ ہمیں ایسی کوئی بات نہیں سکھاتی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی تھی کہ میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو میرا مددگار اور ساتھی نبی بنا دے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام تنِ تنہا آگے بڑھنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
تیسرا خطرہ اپنے آپ کو غلط بات سے روکنے میں ہماری نااہلی ہے۔ بعض اوقات اپنے آپ کو روکنا نہیں بلکہ سیکھنا چاہئے، چاہے وہ غصہ ہو، خواہش یا ضرورت سے زیادہ چاہنے یا دینے کا لمحہ ہو۔ بعض اوقات ہم خود پر کنٹرول نہیں رکھتے اور پھر اپنے آپ کو ایسے لمحات کیلئے جوابدہ بھی نہیں ٹھہراتے۔ انتخاب ہمارا اپنا ہے کہ ہم زندگی میں کس راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو منفی سمت میں جانے سے روک سکتے ہیں اور اچھے وقت کا انتظار بھی کرسکتے ہیں۔
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ جب اللہ تعالیٰ ہر سب کی قسمت کے متعلق سب کچھ جانتا ہے اور ہونا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے تو ہم کچھ بھی کیوں کریں۔ ہم بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ تم کرو گے وہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کیا کرو گے۔ باالفاظِ دیگر یوں سمجھئے کہ ہر شخص کو اپنے صحیح یا غلط راستے کا انتخاب خود کرنا ہوتا ہے۔ ہم سفر کا راستہ طے کرتے ہیں لیکن اللہ وہ ہے جو ہمارے انتخاب کا نتیجہ پہلے سے جانتا ہے۔
قرآنِ پاک کی سورۃ الانسان کی تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ بے شک ہم نے اس (انسان) کو (سیدھا) راستہ دکھا دیا، چاہے وہ شکر ادا کرے یا (اپنے رب کی)ناشکری کرے۔ یہ آیت ہمیں ایک بار پھر سمجھاتی ہے کہ ہمارا انتخاب ہی ہمیں اچھا یا برا بناتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے جو صحیح مسلم کی حدیث نمبر 223 میں موجود ہے کہ تمام انسان صبح اپنی روح کے تاجر بن کر اٹھتے ہیں، پھر یا تو اسے قید میں ڈال دیتے ہیں یا آزاد کردیتے ہیں۔
ہمیں یہ تمام اسباق یاد رکھنا ہوں گے۔ سب سے پہلے ہمیں کامیابی حاصل کرنے کیلئے خود کامل ہونا یا کسی اور سے بہتر ہونا ضروری نہیں ہے۔ صرف اس چیز پر توجہ مرکوز کریں جو آپ کے آگے ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنے دلوں میں یہ بات بٹھا لیں کہ کامیابی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، صرف ہماری ذاتی کوشش سے نہیں۔ اور تیسری بات یہ ہے ک کوئی اور ہمیں کامیابی سے نہیں نوازے گا جب تک کہ ہم خود ذمہ داری قبول کرکے آگے نہ بڑھیں اور کامیاب ہونے کیلئے درست راستہ منتخب نہ کریں۔