وطن عزیز میں نوجوانوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال نے خطرے کا الارم بجا دیا ہے، کچھ عرصہ قبل تک منشیات کے استعمال سے ایک محدود طبقہ متاثر تھا، لیکن اب یہ لعنت کالجوں، یونیورسٹیوں، حتیٰ کے مڈل، ہائی اسکولوں کے طلباء و طالبات کو اپنی لپیٹ میں رہی ہے، تعلیمی اداریوں کے ہاسٹلز میں رہنے والے طلباء و طالبات میں منشیات کا استعمال تشویش ناک تک حد بڑھ چکا ہے، اس طرح منشیات کی لعنت مستقبل کے معماروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، ملک کے دشمنوں منشیات فروشوں نے طلباء و طالبات کو منشیات کی لعنت میں مبتلا کرنے کے لئے باقاعدہ طور پر گروہ تشکیل دے رکھے ہیں۔
جو تعلیمی اداروں میں اور ہاسٹل کے عملے سے ملی بھگت کرکے نوجوان نسل کو منشیات فراہم کرکے تباہی کا سامان پیدا کررہے ہیں، دنیا کی کل آبادی کے 5فیصد افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں جبکہ اس تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس وقت دنیا میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 26کروڑ کے لگ بھگ ہے، جبکہ 31دسمبر 2020تک پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 76 لاکھ تھی، جس میں ہر سال تقریباً 10فیصد اضافہ ہورہا ہے۔
منشیات کے عادی افراد میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو مرد، خواتین یا نوجوان اس بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں ان کی صحت مند معاشرے میں واپسی آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے، کیونکہ سرکاری سطح پر منشیات کے عادی افراد کے علاج و معالجہ کے لئے سہولتیں ناپید ہیں جبکہ نشہ کی لت میں مبتلا ہونے والے 75 سے 80 فیصد افراد غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، جو پرائیویٹ سیکٹر میں علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔
طبی ماہرین کے مطابق منشیات کے مسلسل استعمال سے انسان مختلف قسم کی جسمانی و ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے، منشیات کے عادی مریض کا مزاج و قوت مدافعت و شخصیت متاثر ہوجاتی ہے، اس کے دماغ کی کارکردگی سست روی کا شکار ہوجاتی ہے، اور جسم میں ناقابل برداشت تکلیف محسوس ہوتی ہے، منشیات کی لت میں مبتلا مریض آنت اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان میں دل کے امراض کے چانس بڑھ جاتے ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے نے منشیات کے عادی مختلف طبقات کے حوالے سے تحقیق میں بہت کم دلچسپی لی ہے، حالانکہ معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس بیماری کی زد میں آچکا ہے جولمحہ فکریہ ہے، دنیا میں وقت صنفی اعتبار سے 67فیصد مرد، 18فیصد خواتین اور 15فیصد نو عمر بچے منشیات کی لت میں مبتلا ہیں، جبکہ 75فیصد منشیات کے عادی افراد کی عمریں 18سے 35سال کے لگ بھگ ہیں، ہر سال منشیات کے عادی افراد میں سے 4سے 5فیصد موت کے منہ میں جارہے ہیں۔
ہمارے ملک میں زیادہ ترچرس، بھنگ، افیون، گانجا، حشیش، ہیروئن، کوکین، ماری جوانا، ایمفی ٹیمائن کا نشہ کیا جارہا ہے، جبکہ شیشہ کیمیکل اور شراب کا استعمال بھی کثرت سے ہورہا ہے۔بعض اقسام کی منشیات میں ادویات کا بھی استعمال کیا جاتا ہے، اس قسم کی منشیات کے عادی افراد میں دل کا مرض لاحق ہونے کا ہر وقت خدشہ موجود رہتا ہے اور اس نشہ کو ترک کرنے سے خطرناک نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بعض افراد اپنے غم مٹانے کے لئے مختلف اقسام کے نشے کرتے ہیں لیکن پھر اس کے عادی ہوجاتے ہیں، اور دنیا کی ہر چیز کو اپنے نشے سے کم سمجھنے لگتے ہیں، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے، اور یوں بیمار ذہن لوگ قبر کی آغوش تک پہنچ جاتے ہیں، منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ ملک میں منشیات فروشوں کے لئے سزا کا کم ہونا ہے، کیونکہ ملک میں قانون اس حد تک کمزور ہے کہ بڑے بڑے منشیات فروش پکڑے جانے پر کچھ عرصہ بعد ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔
جس طرح منشیات کے استعمال کے تدارک کے کئی طریقے ہیں اسی طرح سے اسے استعمال کرنے کے محرکات بھی بہت زیادہ ہی، ان میں ایسا کوئی محرک نہیں جو اس مسئلے کی پوری طرح تشریح کرے، جس میں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں اور لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں، تعلیم یافتہ نوجوان ڈگری، فائلوں میں تھانے بیروزگار گھوم رہے ہیں، جہاں خواہشیں، حسرتیں ہر کسی کے ذہن پر سوار ہوں، وہاں منشیات کے استعمال کو روکنا کس طرح ممکن ہے؟۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات کے عادی افراد سے نفرت کرنے کے بجائے ان لوگوں میں منشیات سے نفرت کا شعور اجاگر کیا جائے، یہ لوگ تو در حقیقت محبت و خلوص کے مستحق ہوتے ہیں، ہم اپنے اچھے رویوں سے ان کی لڑکھڑاتی زندگی کے خلاف نبرد آزما ہونے اور ان کے جینے کی نئی اُمید پیدا کرسکتے ہیں‘ اکثر نشہ کے عادی افراد اس بری عادت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں، مگر ان کی قوت مزاحمت دم توڑ چکی ہوتی ہے، حکومت وقت کو بھی چاہئے کہ انسداد منشیات آرڈیننس میں ترمیم کرکے سزاؤں میں اضافہ کیا جائے اور ان سزاؤں پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے جبکہ منشیات کے استعمال میں مبتلا مریضوں کے علاج و معالجے کے لئے ہر تحصیل و ضلع سطح کے اسپتالوں میں یونٹ قائم کئے جائیں۔
پوری قوم کو ذمہ داری سمجھتے ہوئے منشیات جیسی لعنت کو معاشرے سے ختم کرنے کے لئے متحرک کردار ادا کرنا چاہئے، اگر ایسا نہ کیا جاسکا تو پھر آنے والے چند سالوں میں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی منشیات کے عادی افراد میں اس حد تک اضافہ ہوجائے گا کہ پھر اس لعنت پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔