عالمی ماحولیاتی بحران کے حل کیلئے بین الاقوامی کاوشیں اور پاکستان کا کردار

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عالمی ماحولیاتی بحران کے حل کیلئے بین الاقوامی کاوشیں اور پاکستان کا کردار
عالمی ماحولیاتی بحران کے حل کیلئے بین الاقوامی کاوشیں اور پاکستان کا کردار

ماحولیاتی آلودگی پاکستان، بھارت، چین، روس، امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا کے ہر ملک کا مسئلہ بن چکا ہے جس کے حل کیلئے عالمی برادری کو مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔

حال ہی میں پاکستان نے الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت آئندہ 5 برس میں 1 ہزار برقی بسیں خرید کر نجی کمپنیوں کی مدد سے انہیں سڑکوں پر رواں کرنے کا وعدہ کیا۔ پالیسی میں یہ بھی کہا گیا کہ 2030ء تک ملک کی 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی۔ آئیے الیکٹرک وہیکل پالیسی اور ماحولیاتی بحران کے حل کیلئے بین الاقوامی کاوشوں اور گفت و شنید کا جائزہ لیتے ہیں۔

یومِ ارض اور عالمی ماحولیاتی سمٹ سے پاکستان کا خطاب

ہر سال 22 اپریل کے روز اقوامِ متحدہ کے تحت زمین کاعالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں کے عالمی چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے شعور اجاگر کرنا ہے۔ اس موقعے پر امریکا نے عالمی ماحولیاتی سمٹ منعقد کی جس میں پاکستان سمیت 41 ممالک شریک ہوئے۔

آج سے 2 روز قبل ماحولیاتی سمٹ / اجلاس سے وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے 100 ارب ڈالرز کی فراہمی یقینی بنائے۔

معاونِ خصوصی نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم گفت و شنید سے آگے بڑھ کر ماحولیاتی چیلنجز کا عملی مقابلہ کریں۔ پاکستان 10 بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت سرِ فہرست ملک ہے۔ 2030ء تک پاکستان دنیا میں ایک کلین توانائی پیدا کرنے والا ملک ہوگا۔

مذکورہ اجلاس کی صدارت امریکی وزیرِ زراعت نے کی۔ ہالینڈ، پرتگال، روانڈا، قطر، تھائی لینڈ، مراکش کے وزراء بھی سمٹ میں شریک تھے۔ کلائمٹ سمٹ کا افتتاح امریکی صدر جو بائیڈن نے کیا۔ 

ماحولیاتی چیلنجز اور انسانیت کو درپیش خطرات

زمین پر حالیہ ریکارڈ کیا گیا اوسط بین الاقوامی درجۂ حرارت 15 ڈگری سینٹی گریڈ ہے تاہم زمینی ریکارڈ ہمیں بتاتا ہے کہ ماضی میں یہ کم اور زیادہ ہوتا رہا ہے۔ افریقی ملک روانڈا میں 150 ممالک نے گرین ہاؤس افیکٹ روکنے کیلئے 2016ء میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

سائنسدانوں کو تشویش لاحق ہے کہ درجۂ حرارت میں تبدیلی بہت تیزی سے رونما ہوئی جس سے مستقبل میں زمین کا موسم شدید رخ اختیار کرے گا اور درجۂ حرارت کی تبدیلی کے باعث گلیشیئرز پگھل جائیں گے جن کا پانی سمندر کی سطح میں خطرناک اضافہ کرے گا اور بہت سے ساحلی شہر صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے۔

گرین ہاؤس افیکٹ اور خطرناک موسمی اثرات

ایک ایسا قدرتی عمل جس کی مدد سے زمین سورج سے حاصل شدہ توانائی یعنی گرمی کو قید کرکے تپش حاصل کرتی ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ انسان زراعت اور کارخانوں کے ذریعے گرین ہاؤس گیسز فضا میں داخل کرتا ہے جس سے قدرتی گرین ہاؤس اثر دوچند ہوجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زمین کا درجہ حرارت آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے اور اسی چیز کو ہم گرین ہاؤس اثر، خطرناک موسمی اثرات یا ماحولیاتی تبدیلی کا نام دے سکتے ہیں۔ گرین ہاؤس گیسز کے باعث زمین کا ماحول تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ 

زمین کا درجۂ حرارت بڑھانے والی گیسز 

کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھانے میں سب سے اہم گرین ہاؤس گیس پانی کے بخارات کو سمجھا جاتا ہے تاہم یہ ہوا میں چند دن ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں تاہم کاربن ڈائی
آکسائیڈ زیادہ طویل عرصے تک فضا پر حکمرانی کرتی ہے۔ انسان بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کم کرنے والے جنگلات کاٹتا اور ایندھن جلا کر کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو 1750ء میں صنعتی انقلاب آیا جس کے بعد سے اب تک فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں 30 جبکہ میتھین کی مقدار میں 140 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ آج جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں موجود ہے، گزشتہ 8 لاکھ برسوں میں اس کی کوئی مثال دستیاب نہیں۔ 

مستقبل کے خطرات

عالمی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی نے 8 سال قبل ایک تخمینہ پیش کیا جس سے پتہ چلا کہ 21ویں صدی کے اختتام تک عالمی درجۂ حرارت میں 1 اعشاریہ 5 ڈگری اضافہ ہوسکتا ہے اور عموماً 2 ڈگری گرمی کو خطرناک عالمی تبدیلی قرار دیا جاتا ہے۔

اندازہ یہ ہے کہ صاف پانی کی فراہمی، خوراک کی پیداوار میں تبدیلی، سیلاب، طوفان، قحط سالی اور گرمی کی لہروں میں اضافہ ہوگا۔ بڑے پیمانے پر اموات کا خدشہ ہے۔ دنیا کے 150 سے زائد ممالک نے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کم کرنے سے اتفاق کیا ہے۔

پاکستان کا کردار 

دیکھا جائے تو پاکستان ایک ایسا ترقی پذیر ملک ہے جس نے ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے ماضی میں خاطرخواہ پیش رفت نہیں کی تاہم موجودہ دور میں بلین ٹری سونامی منصوبے کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔

بین الاقوامی ماحولیاتی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے معاونِ خصوصی ملک امین اسلم نے بتایا کہ پاکستان ری چارج سیلابی ریلے کو مفید طریقے سے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پاکستان نے کورونا وباء کے دوران 85 ہزار گرین جابز فراہم کیں۔گرین شعبے میں پاکستان مزید 1 لاکھ نوکریاں فراہم کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔

قبل ازیں وزیرِ اعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام حیاتیاتی تنوع پر سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پاس 12 موسمیاتی زون اور عمودی ڈھلوان ہے۔ ہم بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے شمال میں بلند ترین پہاڑی سلسلہ موجود ہے۔ حکومت حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ مقامی افراد کو روزگار فراہم کیا جارہا ہے۔ جنگلات محفوظ کیے جارہے ہیں اور پودوں کی نرسریاں بنائی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نیشنل پارکس کی تعداد 39 تک لے جاچکے اور مزید بھی بنائیں گے۔ جانوروں اور پودوں کی حفاظت کیلئے مقامی آبادی کا تعاون حاصل کرچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے حیاتی تنوع پر سمٹ منعقد کی، اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ 

Related Posts