عورت مارچ کیلئے نیک خواہشات

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایک پاکستانی خاتون ہونے کے ناطے میں یہ ڈھونگ کر کے تنگ آچکی ہوں کہ میں عورت مارچ کی حمایت کرتی ہوں اور سڑکوں پر نکل کر اپنے بنیادی حقوق کے لئے لڑ رہی ہوں۔

ہمارے معاشرے کی یہ سوچ ہے کہ مردوں نے پہلے ہی ہمیں رہنے کے لئے ایک گھر ، بچے ،کھانا پکانے کے لئے ایک باورچی خانہ فراہم کردیا ہے ، مزید کاوشوں کی کیا ضرورت ہے؟

پاکستان ایک ایسے معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے جو روایت اور رسم و رواج پر استوار ہے  جس میں ہم خواتین اپنا دماغ کھول کر سڑکوں پر نکل رہی ہیں اور میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگا رہی ہیں جس سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ ہم ازدواجی عصمت دری کی مخالفت کرتی ہیں اور اسقاط حمل کی حمایت کرتے ہیں۔

ہم نامناسب رابطے، ہراساں کرنے سے نفرت، شوہر کا انتخاب کرنے یا جنسی و جسمانی حملے کی مخالفت کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ جب مرد ہمیں سب کچھ مہیا کررہے ہیں تو ان حقوق کیلئے کون سوال کرسکتا ہے اگر ہمیں روزانہ کی بنیاد پر مارا پیٹا جائے یا تیزاب سے ہمارے چہرے جلائے جائیں تو کیا غلط ہے؟ اور یہ صرف اس لئے برداشت کرنا پڑتا ہے کہ مرد ہمیں دو وقت کا کھانا فراہم کرتے ہیں۔

مجھے شرم آتی ہے کہ ہم معاشرے سے بہت کچھ پوچھ چکے ہیں۔ کیایہ ہماری غلطی ہے؟ ہم ازدواجی عصمت دری کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ وہ ایک شوہر ہے۔ یہاں تک کہ اگر حمل کی پیچیدگیاں ہماری زندگی کو ختم کرسکتی ہیں تو بھی کیوں اسقاط حمل کریں؟

کیا ماں ، بیوی اور بیٹی ہونا کافی نہیں ہے؟ مجھے خوف ہے اس دن سے اگر خواتین بھی اپنے لئے شوہر کا انتخاب کرنے کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو مردوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوجائیگا۔ کیا آپ نے پاکستانی مردوں کو دیکھا ہے؟ کون ان سے شادی کا انتخاب کرے گا؟ اور میرا اندازہ ہے کہ اسی وجہ سے خواتین پردباؤ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہمیشہ یاد رکھیں کبھی بھی حق کی بات نہ کریں کیونکہ کبھی کسی مرد نے یہ نہیں کہا کہ ذہین عورت خوبصورت نظر آتی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عورت کو اس کی مرضی کے مطابق کس طرح زندگی گزارنی چاہئے۔ کیا آپ نے کبھی کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے آج اپنے باس کو مارا کیوں کہ میں اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پایا؟ نہیں، کیونکہ غصہ صرف اپنی بیویوں پراتاراجاتاہے۔

جب سے خواتین نے گھروں سے نکلنا شروع کیا ہے ، عصمت دری اور اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بن رہی ہیں  اور ایساکیوں نہیں ہونا چاہئے؟ ، عورت باہر نکلی کیوں؟، مشرقی لباس پہننے اور غروب آفتاب سے پہلے واپس آنے کے باوجود ایک دن کا جنسی استحصال ہوتا ہے پھر بھی قصوروار کون ہے؟ یقینا ً یہ عورت کا اپنا قصور ہے۔

اسے کسی بھی طرح اپنا گھر تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے تھا۔ کسی نہ کسی طرح وہ گھر میں رہتی ہے اور اسے اپنے ہی گھر والوں نے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا کیونکہ اس کا قصور ہے کہ اس نے مردوں کو اشتعال دلایا ہوگا۔ یہ ہمیشہ ہمارا قصور ہے ، چاہے وہ ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ لاہور موٹر وے پر انتظار کر رہی ہو جسے 2 مردوں نے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا کیونکہ اسے گھر چھوڑنا نہیں چاہئے تھا یا 6 سالہ نابالغ لڑکی جو ناشتہ خریدنے نکلی تھی اور وحشیانہ حملے کا نشانہ بنی۔

ایک بار پھر خواتین کیوں مارچ نہ کریں، ہمارے آباواجداد نے آزادی کیلئے انگریزوں کے خلاف مارچ کیا اور پاکستان کو آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیا۔ کیا یہ کافی نہیں ہے؟ اگر عورت مارچ میں جہیز ، بچوں کی شادیوں ، جبری مذہب تبدیلی، گھر کے کاموں میں صنفی مساوات کے خلاف مطالبات کے ساتھ ایک منشور ہوتا ہے تو؟ کیاپھر بھی ہم اس میں شرکت کریں گے کیونکہ یہ ایک ایسا زہر ہے جو ہمارے دماغوں میں پھیل رہا ہے۔

اس سال بھی ایک بار پھر میں امید کرتی ہوں کہ جب ہم جیسی خواتین سڑکوں پر نکلنے اور اپنے حقوق کا نعرہ لگانے کی ہمت کریں گی تو ہمیں خلیل الرحمٰن جیسے مغرور مرد یاد آئیں گے جو کہتے ہیں کہ ‘میں تھوکتا ہو ں تیرے جِسم پر۔ اس سے ہمیں یہ بھی یاد آتا ہے کہ خواتین کے لئے یہ مارچ کتنا اہم ہے ۔

عورت مارچ میں ایک نعرہ یہ بھی ہے کہ میں مارچ میں شریک ہوتا ہوں تاکہ میری بیٹیوں کو مارچ نہ کرنا پڑے، ہمارا معاشرہ ایک بار پھر عورت مارچ پر بحث کرے گا لیکن اس کے اصل مقصد کو بھول جائیگا کہ آخر خواتین مارچ کرتی کیوں ہیں۔عورتوں کے حقوق کیلئے مارچ کرنے والی خواتین کیلئے ہماری نیک خواہشات حاضر ہیں۔ 

Related Posts