تحفظ مساجدومدارس ۔۔؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان تحریک انصاف جب سے برسراقتدارآئی ہے یہ اپنے ملک کے عوام کے مفادات کاتحفظ کرنے کی بجائے بین الاقوامی اداروں اورطاقتوں کے مفادات کے لیے سرگرم ہے حکومت کے ہراقدام کے پیچھے عالمی طاقتوں کی خوشنود ی نظرآتی ہے ریاست مدینہ کے نعرے کی آڑمیں ملک کوسیکولراسٹیٹ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ملک کی نظریاتی سرحدوںپرحملے کیے جارہے ہیں ۔

حکمران طبقے کی اول دن سے یہ خواہش ہے کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے اہم مورچوں مساجدومدارس کوکنٹرول کیاجائے یہی وجہ ہے کہ ماضی میں مساجدومدارس کودہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی مساجدومدارس کے خلاف ملک کے اندروباہرزہریلاپروپیگنڈہ کیاگیا این جی اوزنے مدارس ومساجدکے خلاف جعلی رپورٹس بناکربین الاقوامی اداروں کوبھیجیں مگرتمام ترحکومتی حربے اوراین جی اوزکی جعلی رپورٹیں ناکام ہوئیں وہ کسی طورپربھی مساجدومدارس سے عوام کاتعلق ختم نہ کرسکے عوام پہلے سے بڑھ کران دینی اداروں کے ساتھ تعاون کرنے لگے توموجودہ حکومت اس عوامی تعلق کوختم کرنے کے لیے میدان میں آئی ہے اورپے درپے ایسے اقدامات کررہی ہے کہ جس سے دینی وعوامی حلقوں شدیدتشویش اوراضطراب پایاجاتاہے ۔

ایف اے ٹی ایف کے نام پر27ستمبر2020کوحکومت نے وقف املاک بل منظورکروایاکہ جوسراسرانسانی حقوق ،آئین پاکستان اوراسلامی اصولوں کے خلاف ہے صدرمملکت کے دستخطوں سے یہ بل اب ایکٹ بن چکاہے اب دیگرصوبوں میں بھی اس طرح کی قانون سازی کی جارہی ہے سب کومعلوم ہے کہ یہ قانون سازی یا ترمیمی بل معمول کی قانون سازی اور روایتی طریقے سے ہٹ کر اور افراتفری کے ماحول میں پاس کرایا گیا ہے۔ جب یہ بل منظوری کے تقاضے پورے ہونے کے بعد منظر عام پر آیا تو اس سے ان خدشات کو تقویت ملی کہ فی الواقع یہ بل معمول کی قانون سازی کی بجائے خالص بیرونی دبا ئوکے نتیجے میں منظور ہوا ہے

وقف املاک بل کے خلاف اپوزیشن جماعتوں اوردینی حلقوں کی طرف سے بیانات آئے مگرحکومتی حلقوں کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی ظاہرہے کہ حکومت کواس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے اقدامات سے اہل پاکستان خوش ہوتے ہیں یاناراض ؟ان کی بس ایک ہی خواہش ہے کہ عالمی قوتیں راضی ہوجائیں اس ناجائزقانون سازی کے خلاف اسلام آبادکے علماء میدان میں آئے اسلامی ملک میں ،، تحفظ مساجدومدارس ،،کے نام سے تحریک کی بنیادرکھی حالانکہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے یہاں مساجدومدارس کاقیام ریاست کی ذمے داری بنتی ہے مگرریاست نے اس پہلوسے ہمیشہ غفلت برتی ہے جس کی وجہ سے عوام نے اپنی مددآپ کے تحت یہ فریضہ خودسرانجام دے رہے ہیں مگرحکمرانوں کویہ برداشت نہیں ہورہا۔

وفاقی دارالحکومت میں 80سے زائدسرکاری مساجدہیں مگریہ علماء سرکاری مساجدمیں امام وخطیب ہونے کے باوجود کلمہ حق کہنے سے کبھی بھی بازنہیں آئے ہرتحریک میں ان علماء نے نمایاں کرداراداکیا ہے،یہی وجہ ہے کہ برسراقتدارآنے والاہرحکمران وفاقی دارالحکومت کی مساجد،مدارس اورعلماء پرخصوصی نظررکھتاہے،تمام ترحربوں اورکوششوں کے باوجودکوئی بھی حکومت اسلام ابادکے علماء کواپناہمنوانہیں بناسکی ہے۔

وقف کرنے والے شخص کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے بجائے رجسٹریشن کے نام پر اس کے لیے ایسی ناقابل عبور رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں جس کے بعد وقف کرنا، جوئے شیرلانے کے مترادف ہوگا۔موجودہ ایکٹ نے لاکھوں پاکستانی عوام کی امنگوں کا خون کیا ہے، جو ریاستی سطح پر غفلت اور کوتاہی کے باوجود، تمام رفاہی اداروں بالخصوص دینی اداروں کے تمام انتظامات اپنے تعاون سے کرتے آرہے ہیںاس ایکٹ سے یہ واضح ہوگیاہے کہ دنیا سے اسلامی اقتدار کے غروب کے بعد یہ انگریزکی حسرت تھی کہ دینی مراکز کسی ناکسی طرح سرکاری تحویل میں لیے جائیں، یہ ایکٹ بھی اسی سوچ وفکرکانتیجہ ہے ۔

Related Posts