وفاق کے وعدے اور سندھ کے دعوے

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی میں برساتی نالوں کی تعمیر نو ،اطراف میں سڑکوں کی تعمیر اور نالوں کو وسعت دینے کا کام تاحال شروع نہیں ہو سکا، موسم برسات کو گزرے 4 ماہ ہو گئے مگر کراچی کے 550 میں سے 27 بڑے نالوں میں سے 3 بڑے برساتی نالوں پر نمائشی اقدامات سے سپریم کورٹ آف پاکستان کو مطمئن کرنے کے سوا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا اور غیرذمہ داری کے باعث مون سون 2021 میں کراچی کے دوبارہ ڈوبنے کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے۔

کراچی کے 27 بڑے نالوں میں سے 3 سب سے بڑے نالوں پر قائم تجاوزات برسات میں اس شہر کو ڈبونے کا سبب بن جاتے ہیں ، سیاسی سرپرستی میں مختلف ادوار میں قائم ہونے والی تجاوزات نے ان بڑے برساتی نالوں کی چوڑائی کو اس قدر مختصر کردیا ہے کہ اب اس کی صفائی بھی ناممکن ہو چکی ہے کیوں کہ درجنوں مقامات پر ان نالوں تک مشینری کی رسائی ہی ممکن نہی رہی ۔

کراچی کا سب سے بڑا اور طویل فاصلے سے نکلنے والا گجر نالہ ہے جس کا فاصلہ 12 کلومیٹر ہے جبکہ دوسرا بڑاورنگی نالہ ہے جس کا فاصلہ 10 کلو میٹر ہے ، اور تیسرا بڑا نالہ محمود آباد نالہ ہے جس کی لمبائی یا فاصلہ 8 کلو میٹر ہے۔

یہ وہ نالے ہیں جو شہر کے درمیان سے گزرتے ہیں مگر ادارہ فراہمی و نکاسی آب کی نا اہلی کے باعث ان برساتی نالوں میں سیوریج سسٹم منسلک ہے جسے واٹر بورڈ کے نا اہل افسران نے اپنا نظام ان نالوں سے منسلک کر کے برساتی نالوں کو گندے نالوں میں تبدیل کر رکھا ہے جس کے باعث اس میں کچرا اور غلاظت موجود رہنے سے یہ پہلے ہی کچرے سے بھرا رہتا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو تجاوزات کے باعث تنگ ہونے کے سبب براستی پانی جب اس میں تیزی سے داخل ہوتا ہے تو نالے کا گندہ پانی سڑکوں ، گلیوں اور گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔

یہ ہی صورتحال مون سون 2020 میں رہی اور جون تا اگست 2020 ان 3 ماہ میں کراچی بار بار ڈوبتا رہا ہے۔اس کا تمام تر نقصان کراچی کے عوام کو اٹھانا پڑا ، تمام راستوں پر نالوں کا گندہ اور بدبو دار پانی برسات میں نظر آتا رہا ۔

درجنوں لوگ اس صورتحال میں ڈوب کر یا دیگر حادثات کے باعث ہلاک ہوئے اس کے تدارک کے لیے وزیر اعظم پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف نے کراچی کا دورہ کیا تھا اور کراچی کے عوام کو یہ پیغام دیا تھا کہ آئندہ 3 سال میں کراچی مکمل تبدیل کر دیا جائے گا، پہلے مرحلے میں شہرکے برساتی نالوں کے نظام کو جدید انداز میںاستوار کیا جائے گا ، اس کے لیے وفاقی حکومت نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی یم اے) کو کراچی میں بلایاتھا۔

این ڈی یم اے نے برسات کے دنوں میں برساتی نالوں پر کچھ کام کیا اور ان نالوں میں پانی کی گزرگاہ بنا دی تھی جس کے بعد ہونے والی بارشوں میں برساتی پانی ان نالوں سے گزر گیا تھا ۔گو کہ پھر اتنی تیز اور طوفانی بارشیں نہیں ہوئیں مگر اب اگست کو گزرے 3 ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے اورابھی تک کوئی منصوبہ این ڈی ایم اے یا حکومت سندھ کا نالوں کے حوالے سے نظر نہیں آرہا جس نے شہریوں کو اب تشویش میں مبتلا کرنا شروع کر دیا ہے۔

بارشوں میں کراچی ڈوبنے کے بعد برساتی نالوں کی تعمیر نو اور اس کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرانے کے لیے بغیر منصوبہ بندی صوبائی حکومت ،ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ بلدیاتی اداروںنے کراچی کے نالوں کے اطراف انسداد تجاوزات مہم کے نام پر منظور کالونی اور محمود آباد نالوں کے ساتھ قائم آبادی کو ہراساں کرنے متعلقہ ادارے پہنچے تاہم آپریشن نہیں کیا صرف ڈرا دھمکا کرکر واپس چلے گئے جس کا مقصد سپریم کورٹ آف پاکستان کو اطمینان دلانا تھا۔

اب بھی وفاقی ادارے این ڈی ایم اے، حکومت سندھ ، ضلعی انتظامیہ اور بلدایاتی اداروں کے سر جوڑنے کے باوجود کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا اور منصوبہ بندی مکمل نہ ہونے کی اطلاعات ہیں، اگر انتظامیہ اور متعلقہ ادارے نالوں کے اطرف تجاوزات کے خاتمے ، نالوں کو وسعت دینے، انہیں پختہ کرنے اور ان کے دونوں طرف کشادہ سڑکیں بنانے کا کام شروع بھی کرتے ہیں تو اس کے پہلے فیز یعنی تجاوزات کے خاتمے میں ہی ایک سال سے زائد کا عرصہ درکار ہوگا ، پھر ان نالوں کو پختہ کرنا اور پھر سڑک کی تعمیر ان تینوں فیز میں کم و بیش 3 سے 5 سال کا عرصہ درکار ہوگا ۔

اہم بات تو یہ ہے کہ ابھی تو منصوبہ بندی ہی نہیں ہو سکی جس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ سال بھی کراچی میں اگر طوفانی مون سون بارشیں ہوئیں تو کراچی دوبارہ ڈوب جائے گا کیوں کہ کراچی کے 500 ساے زائد برساتی نالوں پر تجاوزات کے قیام کے باعث 300 نالے مکمل بند ہو چکے ہیں ،ان چھوٹے نالوں کا کئی مقامات سے وجود ہی سیاسی چائنہ کٹنگ کی نظر ہو چکا ہے ، ان پر اب مکانات ہیں یا دکانیں قائم ہو چکی ہیں۔

گزشتہ 20 سال سے تجاوزات کے قیام سے نالوں کے نشانات ہی ختم ہو چکے ہیں ، ایسی صورتحال میںکراچی کا ڈوبنا لازمی جز ہے ، ان چھوٹے نالوں کے ساتھ کراچی کے 27 بڑے نالوں پر بھی تجاوزات قائم ہیں جو ان حکومتوں کی نا اہلی ثابت کرتے ہیں کہ جن کے دور میں یہ قائم ہوئے ، ان کے خاتمے کو سیاسی جماعتیں اپنے ووٹ بینک کا نقصان سمجھتی ہیں اور وہ ان کے خاتمے میں رکاوٹیں ڈالتی ہیں ، ان نالوں کے اطرف اکثریت غیر مقامی افراد آباد ہوئے ہیں اور وہ مقامی افراد جنہوں نے قبضے کر کے ان نالوں کو مختصر کر دیا تھا وہ اب غیر مقامی لوگوں کو اپنے یہ مکانات فروخت کر کے انہیں بسا کر دوسری جگہ منتقل ہو چکے ہیں۔

جب تک سیاسی جماعتوں کی حمایت نہیں ملتی تب تک یہاں سے تجاوزات کا خاتمہ نا ممکن ہے کیوں کہ یہ سیاسی جماعتیں ان تجاوزات کی حمایت میں مظاہرے اور احتجاج کرواتی ہیں جس سے تجاوزات کے خاتمے میں مزاحمت کا سامنا رہتا ہے۔ 

کراچی کے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات بھی ہیں ، ان میں سے بیشتر برساتی نالوں پر قائم ہیں، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ ادارے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ ہی میدان میں اتریں تب ہی مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔

Related Posts