حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کے 4 ہزار 500 سے زائد ملازمین کو برطرف کردیا جبکہ یہ برطرفیاں اتنی حیران کن بھی نہیں ہیں کیونکہ حکومت پہلے ہی بحالی کے عمل کے تحت خسارہ دینے والے صنعتی یونٹ (اسٹیل ملز) کے 9 ہزار 300 ملازمین کو برطرف کرنے کا پہلے ہی اعلان کرچکی تھی۔
گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے ملازمین کیلئے 19 اعشاریہ 5 ارب سے زائد گرانٹ کی منظوری دی جس سے سالہا سال سے واجب الادا تنخواہیں اور دیگر واجبات کے مسائل حل ہوئے۔ اس کے تحت برطرف ہونے والے ہر ملازم کو 23 لاکھ روپے ادائیگی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ تمام ملازمین کو برطرف کرنے کا فیصلہ تکلیف دہ ضرور تھا لیکن معیشت پر اس کا بوجھ بے حد زیادہ تھا۔
بلاشبہ پاکستان اسٹیل ملز ملک کا سب سے بڑا صنعتی یونٹ سہی لیکن سن 2015ء سے یہ ادارہ خسارے میں رہا۔ گزشتہ 2 سال سے اسٹیل ملز میں 1 ٹن اسٹیل تک تیار نہیں ہوسکا اور ادارے پر حکومت کو پیسہ پانی کی طرح بہانا پڑ رہا تھا۔ بالآخر حکومت کو ملازمین کو برطرف کرنے اور ان پر روزگار کے دروازے بند کرنے کا تکلیف دہ فیصلہ کرنا پڑا۔
پاکستان اسٹیل ملز کو 70ء کی دہائی میں سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں روس کے تعاون سے قائم کیا گیا۔ یہ 2001ء میں اور پھر 2007 اور 2008ء میں ایک منافع بخش ادارہ بھی رہا جس کی ریکارڈ فروخت 42 ارب اور منافع 2 اعشاریہ 3 ارب روپے رہا۔ بعد ازاں سالہا سال بدعنوانی اور بد انتظامی کے باعث ادارے پر 230 ارب روپے کا بھاری بھرکم قرض اور 160 ارب روپے کا خسارہ بدقسمتی کے بادل کی طرح چھا گیا۔ یہ ادارہ بیل آؤٹ پیکیجز کے باوجود بھی اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہوسکا جب تک کہ اسے مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ نہیں کر لیا گیا۔
یہ فیصلہ متنازعہ اِس لیے ہے کیونکہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اسے عمران خان کی حکومت کے خلاف استعمال کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومت عوام کو ملازمتیں فراہم کرنے کی بجائے چھینتی چلی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی اسٹیل ملز کا سیاسی فائدہ اٹھاتی نظر آتی ہے جو اپنے آپ کو ملازمین برطرف کرنے کے فیصلے کی سب سے بڑی نقاد ثابت کرتے ہوئے اسے مزدور مخالف پالیسی قرار دیتی ہے اور چاہتی ہے کہ حکومت یہ فیصلہ واپس لے لے۔
یہاں قابلِ ذکر حقیقت یہ بھی ہے کہ ملکی پیداوار کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اسٹیل کی کھپت بھی کم ہو گئی ہے جبکہ پاکستان نے اپنی توجہ برآمدات پر مرکوز کررکھی ہے۔ اسٹیل ملز کا ادارہ پیداوار اور کھپت کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر رہا کیونکہ اسے بھاری بھرکم سرمایہ کاری درکار تھی تاکہ پیداوار بڑھائی جاسکے اور آج بھی اسٹیل ملزکا ادارہ پیداوار کے معاملے میں بلاسٹ ٹیکنالوجی پر انحصار کرتا ہے۔ اسٹیل ملز کو مکمل بحالی اور نئے سرمایہ کاروں کی ضرورت ہے لیکن بھاری بھرکم قرض سے ایسی مشکلات پیدا ہوئیں جو دور نہ کی جاسکیں۔
پاکستانی ریاست غیر پیداواری افرادی قوت اور خسارے میں رہنے والے کاروباری اداروں کا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی، اس کے باوجود پاکستان اسٹیل ملز پر سالانہ 50 ارب روپے لگا دئیے جاتے ہیں۔ معیشت کو پٹڑی پر لانے کیلئے ہمیں سیاسی جبر کے باوجود تکلیف دہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔