گلگت بلتستان کے انتخابات 15 نومبر کو ہورہے ہیں اور اس وقت انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے ، پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے علاقے کو صوبائی حیثیت دینے کے اعلان کی وجہ سے انتخابات خاص اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے 24 حلقوں میں انتخابات ہوں گے۔ 330 سے زیادہ امیدوار انتخاب کیلئے میدان میں مقابلہ کر رہے ہیں اور 759000 سے زیادہ افراد ووٹ ڈالنے کے لئے اندراج کر چکے ہیں۔
ملک کے دیگر حصوں کے برعکس گلگت بلتستان میں پولنگ کے دوران فوج تعینات نہیں کی جائے گی اور عبوری حکومت نے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کا عزم کیا ہے۔
گلگت بلتستان میں دھاندلی اور تشدد کے کوئی واقعات رونما نہیں ہوتے اور انتخابات پرامن انداز میں منعقد ہوتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کو پہلے ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا کیونکہ اس علاقے کو1970 کے بعد سے شمالی علاقہ جات کہا جاتا تھا۔
اس علاقے کا نام 2007 میں رکھا گیا اور صرف 2009 میں اسے خود حکومت کا درجہ دیا گیا تھا جبکہ یک جماعتی پارلیمنٹ کی صرف دو اسمبلیوں نے اپنی مدت مکمل کی ہے۔ اس طرح یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اس خطے کو باقی ملک کی طرح کا ترقی و اختیارات دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ مرکز میں جو جماعت حکومت کرتی ہے وہ خطے میں حکومت بناتی ہے۔ اس لئے اس وقت تمام تر نظریں تحریک انصاف پر مرکوز ہیں کہ آیا اپوزیشن کے دو اہم رہنماؤں بلاول بھٹو اور مریم نواز کی فعال مہم کے باوجود حکمران جماعت انتخابات جیت سکتی ہےیا نہیں۔
گیلپ پاکستان کے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ تحریک انصاف انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مضبوط امیدوار ہے جبکہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) مٹھی بھر سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا جی بی کے لوگ اس پارٹی کو ووٹ دیں گے جس نے اسلام آباد میں حکمرانی کی ہے یا کوئی آزاد فیصلہ لیتے ہیں۔ بلاول اور مریم کو یہی امید ہے کہ وہ انتخابات میں قابل اعتبار فائدہ اٹھائیں گے۔
اس خطے کو پاکستان کا پانچواں صوبہ قرار دینے کے وعدے کی وجہ سے بھی تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے، جی بی کو ایک مثالی مقام حاصل ہے کیونکہ یہ چین کا دروازہ ہے اور یہاں سے سی پیک پروجیکٹس کا آغاز ہوتا ہے۔
چنانچہ انتخابات کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ چین ہندوستان کی تسلط سے نمٹنے کے لئے راستہ تلاش کر رہا ہے۔
اب پی ٹی آئی حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے اور صرف سیاسی فوائد کے لئے یہاں کے لوگوں کا ووٹ لیکر انہیں مایوس نہ کرے۔