بھٹو کی اقتصادیات اور قومی مشکلات

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک کے معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ 1962کی دہائی سے شروع ہونے والا معاشی ترقی کاسفر اگرجاری رہتا توشاید اب تک پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں اپنا نمایاں مقام حاصل کرچکاہوتا، اس دور میں بہت تیزی کے ساتھ معاشی اثاثوں کی شروعات ہوئی ۔

ریاست جن صنعتوں کو تیارکرتی جن کارخانوں کی بنیاد رکھتی اسے چلاکر بعد میں پرائیویٹ طریقوں سے بزنس مینوں کے حوالے کردیا جاتاتھا جس سے بزنس مینوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ لوگوں کو پرائیویٹ اداروں میں نوکریاں بھی مل رہی تھی جب کہ اس کے برعکس بھٹوصاحب کے دور میں اس صنعتی ماڈل کا جس انداز میں شیرازہ بکھیرا گیا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکاہے ۔

بھٹو نے اس پرائیویٹ صنعتی انقلاب کو نیشنلائز کرکے ان انڈسٹریز کو اپنے نالائق اور ناتجربہ کار لوگوں اوربیوروکریٹس کے حوالے کردیاجس سے چلتے ہوئے کارخانوں اور انڈسٹریز کی کارکردگی بتدریج زیرو ہوگئی، یہ ہی وجہ تھی کی 1977 کا مزدور اور کسان جو کبھی بھٹو کا مداح تھا وہ اس سے سخت ناراض ہوگیا کیونکہ بھٹو نے ان کے گھروں کے چولہے بجھادیے تھے ، بھٹو نے جو کچھ بھی معیشت کے ساتھ کھلواڑکیا اس کی سزا آج تک پاکستان کی معیشت بھگت رہی ہے۔

1972 میں بھٹو نے جب اپنے منشور کو عملی جامہ پہناتے ہوئے صنعتی اور تعلیمی اداروں سمیت بینکوں کو بھی اپنی تحویل میں لیا اس کے ساتھ ہی دیگرفائدہ مند کاروبار کو سرکاری تحویل میں لیکر اس میں سیاسی بھرتیوں کا عمل بھی شروع کردیا ،اور ان سونا اگلنے والی فیکٹریوں اور صنعتوں پر صرف ان لوگوں کا قبضہ رہنے لگا جو وزارتوں میں رہے ،یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نعرہ بلند کرکے بھٹوکے اس عمل نے آج تک صرف چند خاندانوں کو مضبوط کیا اور ملک میں باقی عوام میں بے چینی بڑھی ۔

دولت کاسفر اقتدار میں موجود لوگوں ان کے رشتے داروں اورمنظور نظر مداح سراہوں کے گرد گھومتا رہا جو آج تک گھو م ہی رہاہے ۔ بھٹو کے بعد ملکی معیشت کا ایک اور بڑا دشمن سابق وزیراعظم میاں نوازشریف ہے جس نے دل کھول کر اپنے مداح سراہوں پر ملکی خزانے کو لٹایا خود بھی لوٹا اور دوستوں کو بھی خوش کرتا رہا،بھٹو کی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھی ہوئی اتفاق فاؤنڈری کو جنرل ضیا الحق نے اپنے فوجی دور میں واپس کردیاتھا اور اتفاق فاؤنڈری کا زرتلاقی بھی نوازشریف کے والد میاں شریف کو واپس کیا،یعنی پچاس کروڑ روپے کمپنی چلانے کے لیے بھی دیئے۔

1990 جنرل ضیا الحق کے زمانے میں جن پیراشوٹر سیاستدانوں کی بنیادیں رکھی گئی ان میں شریف خاندان سرفہرست تھا، 90ء کی دہائی میں ڈی نیشنلائز کا عمل شروع ہوچکا تھامگر ملکی صنعت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں رہ سکی اس کے پاؤں اکھڑ چکے تھے کیونکہ ملک میں بھٹو مختلف روپ بدل کر آتا رہایعنی بھٹو کے دور میں اقتصادی تباہی کے بعد اس کی ذمہ داری اور مشن کو نوازشریف نے اپنے انداز میں سنبھال لیا، یعنی نوازشریف نے ملکی اقتصادیات میں اپنی کارکردگی کچھ اس طرح سے دکھائی کے ملک میں کرپشن کا بازار گرم رہنے لگا۔

لائسنس ،سیکریٹریوں کی اجازت ،ٹھیکیداری سسٹم اور رشوت کا رواج چل نکلا، سیاستدانوں کو رشوت دینے کا سلسلہ شروع ہوا ،بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کے غیر ملکی اکاؤنٹس بھرنے کا سلسلہ اسی دور میں شروع ہوا کیونکہ میاں نوازشریف نے اپنے ہر دور میں نہ صرف خود ملک کو لوٹا بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی پیسہ بنانے کی کھلی چھٹی دی یہ ہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ انڈسٹریز آنے کے باوجود پاکستان اس انداز میں ترقی نہیں کرسکا جس قدر 60ء کی دہائی میں کررہاتھا۔

ملک میں پرائیوٹ اداروں کا معاملہ یہ نہیں کہ ملک میں لوگ اپنا سرمایہ لگا کر اپنی اور ملکی ترقی میں اپنا کرداراداکرتے ہیں بلکہ نوکریوں کا ایک وسیع ذریعہ پرائیویٹ سیکٹر ہوتا ہے، پرائیویٹ سیکٹر لوگوں کو نوکریاں فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہوتاہے ،مگر پرائیویٹ کمپنیوں سے متعلق بھٹو دور کی پالیسیوں کے خاتمے کے باوجود بھی ملک میں صنعتی انقلاب برپا نہ ہوسکا جس کی بڑی وجہ بھٹو کے دور کے بعد نواز،زرداری دور میں کرپشن کا بے پناہ بڑھنا ہے جس میں میرٹ کا قتل عام بھی شامل ہے۔

ملکی معیشت پر عدم توجہ اور لوٹو اورپھو ٹو والا معاملہ چل نکلا تھا ،ملک میں بجلی گیس اور امن وامان کی صورتحال نے پرائیویٹ کمپنیوں کے مالکان کے قدم اکھیڑ دیے تھے ،اسی طرح زرداری صاحب نے بھی بے نظیر کے دور میں خوب پیسہ بنایا اور اسی فارمولے کو اختیار کیاجس کے باعث انہیں جلد ہی مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے جانا جانے لگا اور بے نظیر کی حکومت کو کرپشن کے الزام کے تحت برطرف ہونا پڑا اور کرپشن پر ان پر 20سے زائد مقدمات بنے ۔

آج ان جیسے حکمرانوں کی لوٹ مار اور اپنے حواریوں کو کھلی چھٹی دینے کا یہ نتیجہ ہے کہ ہماری معیشت میں 70فیصد کالا دھن رچ بس گیا،بغیر رشوت اورسفارش کے کوئی بھی کام ممکن نہ رہا ان ادوار میں بھی بڑے بڑے حکومتی لوگوں کی جانب سے پیسہ اکٹھا کرکے ملک سے باہررکھنے کی ریت نے زورپکڑاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار میں رہنے والے چند خاندانوں کے درمیان پیسہ گھومنے لگا اور غریب غریب سے غریب تر ہونے لگا۔
ملکی اداروں میں رشوت اور چور بازاری کا سکہ کیا چلا کہ ملک کبھی بجلی کبھی گیس تو کبھی سیکورٹی کے مسئلوں میں گھرا رہنے لگا یہ سب ان ہی سورما امپورٹڈ سیاستدانوں کی چور بازاری کی وجہ سے ممکن ہوا، ملک میں حالات ایسے نہیں تھے کہ کوئی اپنا سرمایہ لگا کر اپنا کاروبار کرتا کچھ نے ہمت پکڑی تو کچھ بزنس میں ملک سے بھاگ گئے۔

ہمارے وزیر اعظم عمران خان جہاں معاشی اعتبا ر سے ایوب خان کے دور کی بات کرتے ہیں تو وہاں وہ چین کی معاشی ترقی کا بھی خوب تذکرہ کرتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے پوری دنیا کو مرکز سے کنٹرول اکانومی کا تصور پیش کیا نہ صرف اپنی زمین پر اپنے ہی لوگوں کو بزنس کے مواقع فراہم کیئے بلکہ مختلف غیر ملکی کمپنیوں کو بھی کام کرنے کی اجازت دی کیونکہ چین کے اقتدار میں نہ توکسی بھٹو کی حکومت تھی اور نہ ہی وہ وہاں کسی کونے میں زندہ تھاجس کی وجہ سے چین کی اکانومی مزید بہتر ہوگئی ۔

چینی حکومت کی جانب سے لوگوں کو سطح غربت سے نکالنے کاکام انسانی تاریخ کا ایک اہم واقع ہے ،جس طرح میں نے پاکستان کی گزشتہ حکومتوں کی جانب سے معاشی تباہی کی ایک داستان کو بیان کیا ہے وہاں ہمارے ملک کو ان ادوار میں لسانی ،مذہبی فرقہ وارانہ تعصبات سے بھی دوچار کیا جاتارہاہے ،چین میں جہاں معاشی انقلاب سے عام آدمی کی زندگیوں میں بہتری آئی ۔وہاں پاکستان میں سرمایہ دار کاروباری اور حکومتی حلقوں کے لوگوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوتا رہا مگر اس ملک کا ایک عام آدمی غربت کے باعث خودکشیوں پر مجبورہا۔

ہمارے پاکستان میں معیشت کا زیادہ ترانحصار غیر ملکی قرضوں کے ساتھ بندھا رہاجو ریاست کو اغیار کے احسانوں تلے دباتا رہا ،صحت، تعلیم اور سیاحت جیسے شعبے توبنے مگر اس سے کسی ایک انسان کو ٹکے کا فائدہ نہ ہوسکا توانائی اور پانی جیسے معاملات میں عوام اور کاروباری لوگوں کی چیخیں صاف سنائی دیتی رہیں۔22کروڑ کی عوام چند مٹھی بھر خاندانوں کا پیٹ پالتی رہی اپنے ٹیکس سے ان کے محلات کو وسیع کرتی وہاں چین دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود اپنی عوام کو غربت سے نکال لے گیا۔

آج ہمارا ملک جن مشکلات سے دوچار ہے اس کی وجہ کرپٹ حکمرانوں کی منفی طرز حکومت ،بدانتظامی اور کرپشن کی ہزار داستانیں ہیں جس کی سزا اس ملک کا ایک عام آدمی بھگت رہاہے جس کی وجہ سے کلمے کے نام پر حاصل کیا گیا یہ ملک گرے لسٹ میں جاچکا ہے مگر قوم کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورشروع ہونے ولا معاشی تباہی کا یہ سفر 2018 میں آکر اب دم توڑ چکاہے اور امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان مورثی سیاستدانوں کے بھٹو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست کے تابوت میں دفن کردینگے ۔

Related Posts