آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان دوسرے سہ ماہی جائزہ مذاکرات کاآغاز ہوگیا ہے ،جائزہ مذاکرات کی کامیابی کے نتیجے میں آئندہ ماہ پاکستان کو45 روڑ ڈالر کی تیسری قسط ملے گی ،آئی ایم ایف کاجائزہ مشن 14فروری تک پاکستانی حکام سے مذاکرات کریگا اور پاکستان میں اصلاحات پروگرام پر عملدرآمد کا جائزہ لے گا۔
پاکستان نے آئی ایم ایف سے ریونیو ہدف میں مزید 300 ارب روپے کی کمی کی درخواست کی ہے ۔مشیر خزانہ حفیظ شیخ کاکہنا ہے کہ کرنسی مضبوط اور افراط زر کم ہونے لگا ہے ، مہنگائی وقت کیساتھ کم ہوجائے گی تاہم مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک سےقرض نہیں لیا، اس معاملے میں صوبے بھی کردار کریں ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کو معاشی طور پر شدید مشکلات کا سامنا ہے، پاکستان تحریک انصاف حکومت کا پہلا بجٹ چونکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پانے کے بعد آیا جس میں بالواسطہ اور براہ راست عوام پر ٹیکسوں کا نیا بوجھ ڈالنے سے مایوسی کی فضا پیدا ہوئی اور پھر ملک میں مہنگائی میں روز افزوں اضافے اور بے روزگاری نے عوام کو شدید مشکلات میں ڈال دیا۔ مہنگائی کے دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں تقاضے تسلیم کرکے عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈالنا کسی صورت مناسب نہیں ہوگا۔
حکومتی اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کے نتیجہ میں عوام کو ریلیف ملتا تو شائد حکومت پر اعتماد مزید مضبوط ہوتا تاہم بدقسمتی سے غریب عوام کو کسی قسم کا ریلیف ملنے کے بجائے مزید صبر کی تلقین مل رہی ہے ، بجلی،گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشر با اضافہ ہوچکا ہے، اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں، موجودہ حکمران بھی ماضی کی حکومتوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیںجس سے لوگوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔
حکومت کا ماننا ہے کہ پاکستان کے عوام اس وقت انتہائی مشکل سے گزر رہے ہیں ،مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا ہے، حکمرانوں کایہ اعتراف حکومت کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کیونکہ رواں سال کے پہلے مہینے میں مہنگائی کی شرح 14.6 فیصد رہی جو موجودہ حکومت میں سب سے بلند شرح ہے۔
پاکستان کیلئے قرض کی تیسری قسط کے اجراء کیساتھ عوام پر مہنگائی کی نئی افتاد ٹوٹنے کا خدشہ ہی لاحق ہے، آئی ایم ایف کی ہر قسط کی ادائیگی کیلئے اقتصادی اصلاحات کے نام پر ناروا شرائط کوعملی جامہ پہنایا جاتا رہا تو عوام مسائل کے گرداب سے کبھی نہیں نکل پائینگے۔