بھارت نے متنازع شہریت ایکٹ کیخلاف احتجاج کے دوران مظاہرین کی جانب سے اردو کے نامور شاعر فیض احمد فیض کی ایک نظم ہم دیکھیں گے ،کو متنازع رنگ دیکر اس بات کی تحقیقات شروع کردی ہے کہ آیا کہیں یہ نظم ہندو مخالف تو نہیں ہے۔
جامعہ ملیہ میں پولیس کی پرتشدد کارروائی کے بعد آئی آئی ٹی کانپور میں 17 دسمبر کو مظاہرے کے دوران بعض طلباء نے فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ گائی جبکہ انسٹیٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق اس کے بعد بعض طلباء نے تحریری شکایت کی کہ مظاہرے کے دوران پڑھی گئی نظم سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں لہذا ان طلباء کے خلاف کارروائی کی جائے جنھوں نے یہ نظم پڑھی ہے۔
فیض احمد فیض ایک اعلانیہ کمیونسٹ تھےاور انہوں نے اپنی مشہور یہ نظم ’ہم دیکھیں گے‘پاکستان کے آمر جنرل ضیاء الحق کے خلاف لکھی تھی جبکہ 984 میں فیض اس دنیا کو الوداع کہہ گئے اور 1986 میں لاہور کے الحمرہ آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں گلوکارہ اقبال بانو نے اس نظم کو گا کر اسے امر کر دیا۔
نظم میں موجود لفظ بت پر بھارتی حکام کی توجہ مبذول کرائی کیونکہ بھارت میں بت مورتی کوکہاجاتا ہے ،یہاں زبان کے فرق کی وجہ سے سمجھنے میں غلطی ہوئی تاہم اس نظم میں کوئی متنازع بات نہیں تھی جس پر تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔
اگرچہ ہر زبان میں شاعرانہ روایت موجود ہے لیکن اردو شاعری انسانی سن کی آواز کو ایک طاقتور اور خوبصورت انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ اعزازی بیان شاعروں کو اپنے آپ کو زیادہ کھل کر اور بالواسطہ طور پر بھی اظہار دینے کی اجازت دیتا ہے۔
اردو شاعری کا لغوی معنی ہے بلکہ استعاراتی بھی ہے۔ اس کو شاعروں نے جابرانہ حکومت میں استعمال کیا جب فوجی حکمرانی کی طرح بات کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے جب فیض نے یہ نظم لکھی تھی۔
دنیا کی کسی بھی زبان کی ترقی میں اس زبان میں تخلیق کیا گیا ادب بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور ادب اہل زبان کے علم وہنر میں جدت پیدا کرتا ہے بلکہ دیگر اقوام کو بھی اہل زبان سے متعارف کروانے کا سبب بنتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید دور میں ہمارے ترقی پسند ادیب و شاعر جو بائیں بازو کی تحریکوں سے متعارف ہوئے اس کا سہرہ ان ملکوں کے ادب کے سر باندھا جاتا ہے مثلا فیض احمد فیض جو کمیونزم سے متاثر تھے بنیادی طور پر روسی ادب نے انہیں کمیونزم سے متعارف کروایا۔
اس نظم کو آمریت کیخلاف سمجھا جاتا ہے لیکن بھارت میں حکام کی حواس باختگی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض لائنیں مبینہ طور پر بتوں کی پوجا کے خلاف کہتے ہوئے ہوئے اس نظم کو ہندو مخالف قرارددیدیاہے۔
پاکستان اور بھارت کے قیام کے بعد اردو پاکستان اور ہندی بھارت کی قومی زبان بنی تاہم آج بھی بھارت میں لاکھوں افراد ناصرف ارود بولتے بلکہ لکھتے اور پڑھتے بھی ہیں جبکہ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت میں جاری مظاہروں میں ناصرف فیض بلکہ حبیب جالب اور علامہ اقبال کا پیغام بھی پڑھا جارہاہے۔
فیض کی نظم کے حوالے سے رپورٹ توآنا باقی ہے لیکن مظاہرین پوری شدومد کیساتھ مظاہروں میں اقبال، فیض اور حبیب جالب کی انقلابی شاعری کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
مظاہرین کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان شعراء کا تعلق کس ملک سے ہے ان کیلئے احتجاج کو جلا بخشنے کیلئے یہ کلام ہی کافی ہے۔