فرض کیجئے، ہمارے سامنے دو انسان ہیں۔ ایک وہ جو اپنی ذات کا اسیر ہے، اور دوسرا وہ جو اپنی ذات سے بلند ہے۔ یہ دونوں عاقل بالغ بھی ہیں اور باصلاحیت بھی۔ صرف یہی نہیں دونوں ہی ہڈ حرامی کے موڈ میں نہیں، بلکہ فعال زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں کا طرز عمل کیا ہوگا؟ یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ دونوں کی سوچ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک اپنی ذات کا اسیر، دوسرا اپنی قید سے آزاد۔
یہ جو بھی راہ عمل اختیار کریں ایک جوہری فرق تو بہرحال ہوگا۔ وہ یہ کہ اپنی ذات کا اسیر شخص جو بھی پلان کرے گا اپنی ذات کے لئے یا زیادہ سے زیادہ اپنے بال بچوں کے لئے کرے گا۔ اس کا ہر منصوبہ اس کی ذات سے شروع ہوکر اس کی ذات پر ختم ہوگا۔ کوئی اور اس کے منصوبوں میں تب ہی شامل ہو پائے گا جب اسے اس کی مدد درکار ہوگی۔ مثلاً کارخانے دار کے لئے مزدور کی ضرورت۔
اس کے برخلاف اپنی ذات سے بلند ہوجانے والے شخص کی صورتحال یہ ہوگی کہ اپنی ذات کے لئے تو اس نے کوئی بڑی منصوبہ بندی نہیں کرنی۔ لیکن کچھ بڑی عملی سرگرمی تو اس نے بھی کرنی ہے۔ جب ذات مائنس ہوگئی تو بچا کیا؟ پیچھے بچے خدا اور اس کی مخلوق۔ پھر مخلوق میں سے بھی بالخصوص باقی انسان۔ اب یہاں ذرا رک کر قرآن مجید کی پہلی آیت سے سفر شروع کرکے آخری آیت تک آجایئے۔ اللہ سبحانہ و تعالی اپنی اس کتاب میں انسان کو کچھ ہدایات دے رہے ہیں۔ وہ ہدایات جن پر عمل سے اس کا مقصد حیات حاصل ہوگا۔ اگر ذرا سا بھی غور کریں گے تو یہ ہدایت دو سمتوں میں ہیں۔ پہلی سمت خود ذاتِ باری تعالی۔ پہلی ہدایت اللہ اپنے حوالے سے دیتے ہیں کہ مجھے اپنا رب مانئے اور میری اطاعت کیجئے۔
جبکہ دوسری ہدایت مخلوق اور مخلوقات میں سے بھی بالخصوص باقی انسانوں سے متعلق ہے۔ پیغمبروں سے لے کر مساکین تک انسانوں کی کوئی ایک بھی قسم ایسی نہیں جس سے متعلق قرآن ہدایت نہ دیتا ہو۔ سو مطلب یہ ہوا کہ ذات سے بلند ہوجانا درحقیقت خود کو خدا کی اسکیم کے لئے عین فطری حالت میں لانا ہے۔ اپنی ذات سے بلند ہوتے ہی آپشن بس اللہ اور اس کی مخلوق بچتی ہے۔ اور قرآن ہدایات بھی بس ان دو سے متعلق ہی دے رہا ہے۔ قیامت کے روز سوال بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق ہے۔ کیونکہ کوئی بھی شے ان دو میں سے کسی ایک جہت سے باہر نہیں۔
اب اسی نسبت سے ایک اور نکتے پر غور کیجئے۔ اپنی ذات سے بلند ہوجانے والے لوگ عام طور پر دو حالتوں میں نظر آتے ہیں۔ اگر وہ دینی مزاج رکھتے ہیں تو بس اللہ کی طرف ہی ٹوٹل متوجہ ہوجاتے ہیں اور دنیا سے لاتعلق ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہم صوفی کے نام سے جانتے ہیں۔ دوسرے وہ جو دینی مزاج نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ مکمل طور پر انسانوں کی خدمت کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں۔ مثلاً عبدالستار ایدھی، اور ڈاکٹر ادیب رضوی۔ یہ دونوں ہی طرح کے لوگ اپنی ذات سے بلند ہوچکے ہیں۔ مگر پرابلم یہ ہے کہ ایک مکمل طور پر خدا کی جانب متوجہ ہوگیا ہے۔ اور دوسرا مکمل طور پر انسانوں کی جانب۔ جبکہ اللہ کی اسکیم میں تو دونوں جہتیں شامل ہیں۔ یعنی دین اور دنیا۔ خالق اور مخلوق دونوں پر فوکس کرنا ہے۔ جس دن یہ فوکس لوٹ آیا، مسلم دنیا دوبارہ ترقی کی راہ پر ہوگی۔
آیئے بات واپس وہیں لے جاتے ہیں جہاں چھوڑی تھی۔ یعنی اپنی ذات سے بلند ہوجانے والا شخص کیا کرے گا؟ یہ شخص جو بھی پلان کرے گا دوسروں کے لئے ہی کرے گا۔ جو خوشی پہلے شخص کو بیس ہزار کا کھانا خود کھا کر حاصل ہوگی۔ اس سے دس گنا زیادہ خوشی یہ دوسرا شخص دس مزدوروں کو ایک وقت کا کھانا کھلا کر حاصل کرے گا۔ یقین نہ آئے تو ایک تجربہ کرکے دیکھ لیجئے۔
اور وہ یہ کہ ایک دن دس ہزار روپے کا کھانا اکیلے خود کھا لیجئے۔ اور اچھی طرح یہ چیک کر لیجئے کہ وہ کھانا کھا کر آپ کے قلب کی کیفیت کیا ہوئی؟ ہم کھانے کے ذائقے کی بات نہیں کر رہے۔ ہم کھانے اور اس کے ذائقے سے نمٹ چکنے کے بعد اچھا کھانا کھانے پر پیدا ہونے والی قلبی کیفیت کی بات کر رہے ہیں۔ اس کیفیت کو نوٹ رکھئے اور اگلے دن ٹھیک دس ہزار روپے کا ہی کھانا دس مزدوروں کو کھلا دیجئے۔
یہ بات تو طے ہے کہ جو کھانا آپ نے کھایا تھا اس کے مقابلے میں مزدوروں والا کھانا دس گنا کم معیار کا ہوگا۔ کیونکہ جو خود کھایا تھا وہ فی کس دس ہزار روپے بل والا کھانا تھا۔ وہی کھانا دس مزدوروں کو کھلانے کا بل تو ایک لاکھ ہوگا۔ سو کھانا ایک لاکھ کا نہیں دس ہزار کا ہی مزدوروں کو کھلانا ہے۔ ظاہر معیار گرانا پڑے گا اور وہ بھی دس گنا۔ جب یہ دس گنا کمتر معیار والا کھانا مزدور کھا چکیں اور رخصت ہوچکیں تو ایک بار پھر اپنی قلبی حالت کا جائزہ لیجئے۔ آپ پر دو منٹ میں واضح ہوجائے گا کہ دس گنا بہتر معیار والا کھانا خود کھانے میں جو مزہ ہے، وہ دس گنا کمتر معیار والا کھانا دس مزدوروں کو کھلانے سے نصیب ہونے والی طمانیت اور سکون کے آگے ٹکے کی بھی اوقات نہیں رکھتا۔ سو واضح ہوگیا کہ اپنی ذات کا اسیر ہونا عیب ہے۔ اور اس سے بلند ہونا کمال ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اپنی ذات سے بلند ہونے کا سب سے بڑا فائدہ کیا ہے؟ ذرا غور کیجئے، ہمارے ہر نکمے پن، غفلت اور برے عزم کے پیچھے ہماری اپنی ہی کوئی غرض ہوتی ہے۔ چور چوری کیوں کرتا ہے؟ وہ اپنی ذات کا اسیر ہے۔ کسی شے پر رال ٹپک گئی اور خواہش پیدا ہوگئی کہ یہ چیز اس کی ہوجائے۔ پیسے ہیں نہیں اور اس چیز کے بغیر چین نہیں تو اب چوری ہی واحد آپشن بچی۔ اگر وہ اپنے لئے سوچنے والا شخص ہوتا ہی نہیں تو یہ چوری کرتا؟ آپ ڈاکو کی مثال لے لیجئے۔ جو شخص یہ طے کرچکا کہ اس نے دوسروں کے لئے جینا ہے۔ ان کی تکالیف دور کرنی ہیں، انہیں راحت پہنچانی ہے۔ ایسا شخص ڈاکو بن سکتا ہے؟ کام چور بھی کام چوری اس لئے کرتا ہے کہ اپنی ذات کا اسیر ہے سو اپنی ذات کو تھکاوٹ سے بچاتا ہے۔ غرضیکہ آپ جتنے بھی اختیاری عیوب گننا چاہیں گن لیجئے۔ ہر عیب کے پیچھے مرکزی سبب اپنی ذات کا اسیر ہونا ملے گا۔حتٰی کہ عبادات میں غفلت کا سبب بھی یہی چیز ہوتی ہے۔ جو دوسروں کے لئے سوچتا ہو وہ زکوٰۃ دینے میں غفلت کرے گا؟ اپنا دائرہ ملکیت بڑھانے کے لئے باپ کی میراث میں سے بہنوں کا حصہ مارے گا ؟ اور تو اور کیا وہ کسی سے حسد یا بغض رکھے گا ؟
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فساد کی جڑ ہی انسان کا اپنی ذات کا اسیر ہونا ہے۔ یہی اس کے تمام اخلاقی عیوب کا اصل سبب ہے۔ اس قید سے نکل جانے کا قدرتی نتیجہ ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ کی پوری شخصیت ہی یکسر بدل جاتی ہے۔ بے شمار عیوب کھڑے کھلوتے آپ کی ذات سے باہر ہوجاتے ہیں۔ سو ہمارا تو مشورہ یہی ہے کہ توڑیئے اس عجیب و غریب پنجرے کو جو موجود آپ کے اندر ہے، اور آپ باہر سے ہی اس کی قید میں ہیں۔ جادوئی پنجرہ۔