معروف اردو شاعر مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا 222واں یومِ پیدائش آج منایا جا رہا ہے

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ آج مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا 222واں یومِ پیدائش
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ آج مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا 222واں یومِ پیدائش

مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا 222واں یومِ پیدائش ادب کی دنیا میں آج بہت جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے جبکہ دنیائے ادب اور بالخصوص شاعری میں جو مقام مرزا غالبؔ  کو حاصل ہوا، آج تک کسی شاعر کی قسمت میں نہ آسکا۔

مرزاغالب عبداللہ بیگ کے گھر 27 دسمبر 1797ء میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی نام اسد اللہ بیگ تھا جس کے نتیجے میں ابتداً تخلص اسد رکھا، جسے بعد میں تبدیل کرکے غالب کر لیا گیا۔

شاعری کے میدان میں فلسفیانہ ، عشقیہ اور صوفیانہ معرفت پر مبنی اشعار غالب کے کلام کا خوبصورت حصہ قرار دئیے جاتے ہیں۔ مرزا غالب کے اس دور کا ایک شعر ، جب ان کا تخلص اسدؔ تھا:

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ

سنگ اُٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

جو شاعری مرزا غالب نے کی، اس میں ہر دور میں ایک الگ رنگ اور الگ مزاج نظر آتا ہے۔ فلسفیانہ شاعری کا الگ مقصد، مطلب اور معانی ہیں، جن پر آج تک غور کیا جارہا ہے اور اس پر مقالے تحریر کیے جاتے ہیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

نکلناخلد سے آدم  کا سنتے آئے ہیں لیکن

بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے 

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے

بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے

وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

غزل کے شعبے میں مرزا غالب نے جو کمال پیدا کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ غالب نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی شاعری کی اور اپنے فارسی کمال کو اردو سے زیادہ اہمیت دی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا غالب کو اردو کا بڑا شاعر تسلیم کرتی ہے۔ 

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک

اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور

جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے

انسان، خدا اور کائنات جیسے موضوعات پر طبع آزمائی کرنے والے مرزا غالب نے ایسے ایسے اشعار لکھے کہ ان پر سائنس کو تحقیق کرنی پڑی اور جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ سائنسی حقیقتیں بھی ان کے شعور پر آشکار تھیں۔ غالب کا ایک شعر دیکھئے:

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا

اگراس شعر کے معنی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ غالب پتھر میں رگوں کے وجود کا انکشاف کر رہے ہیں۔ شعر کے مطابق غالب نے کہا کہ جسے آپ غم سمجھ رہے ہیں، اگر یہ شرارہ (یعنی چنگاری) تو پتھر کی رگوں سے لہو کی طرح ٹپکتا۔

باالفاظِ دیگر غالب نے اپنے غم کو ایک لاوا قرار دیا۔ انہوں نے شعر میں کہا کہ اگر وہ چنگاری کی صورت میں دل میں موجود ہوتا تو پتھر بنے ہوئے دل کو لاوے کی طرح چیر کر اس کی رگوں سے باہر نکل آتا۔

آج کی سائنس حیران ہے کہ جب پتھر کی ساخت کا تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا اس میں واقعی انسانی جسم کی طرح ایسی رگیں موجود ہوتی ہیں جن سے لاوا سفر کرتے ہوئے باہر آسکتا ہے۔ یہی غالب کے سائنسی شعور کی دلیل ہے۔

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے؟

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

یاد رہے کہ اس سے قبل باکمال شاعر جونؔ ایلیا کو مداحوں سے بچھڑے ہوئے 17 برس ہو گئے جبکہ شاعری کے موضوعات، طرزِ اظہار اور جدید شاعری کے رجحانات کا حسین امتزاج جو جونؔ کے حصے میں آیا، آج تک کسی کو نہ مل سکا۔ 

نامور شاعر جونؔ ایلیا کا اصل نام جون اصغر اور تخلص جون تھا جو دسمبر 1931ء میں بھارت کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ جونؔ ایلیا کا گھرانہ برصغیر کی علمی و ادبی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل کیونکہ اس گھرانے سے صرف جونؔ نہیں بلکہ رئیسؔ امروہوی بھی پیدا ہوئے۔

مزید پڑھیں:  جونؔ ایلیا کو مداحوں سے بچھڑے ہوئے 17 برس مکمل

Related Posts