اسرائیل بڑی جنگ کیوں چاہتا ہے؟ اس سوال کو سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ ایک اہم جنگی حکمت عملی کو پہلے سمجھ لیا جائے۔جنگ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ اس میں ایک فریق کا ہدف زمین کا کوئی ٹکڑا یا دشمن کی تنصیبات کی مکمل تباہی ہوتا ہے اور بالعموم ایسا ہوتا بھی ہے، مگر جنگ بس اسی کا نام نہیں۔ صورتحال کے تقاضوں کے مطابق اس میں حکمت عملی کے بعض شاہکار سامنے آتے جاتے ہیں۔
جنگ ایک باقاعدہ “آرٹ” کا درجہ رکھتی ہے۔ حکمت عملی کے لحاظ سے اس کی کئی اقسام ہیں۔ ان اقسام میں سے ایک مہلک قسم “وار آف اٹریشن” ہے۔ اس حکمت عملی میں زمینی فتح سے قبل یہ ہدف حاصل کیا جاتا ہے کہ دشمن کی فوج کو بڑے جانی و مالی نقصان سے یوں دوچار کیا جائے کہ اس کا پورا دفاع زمین بوس ہوجائے۔ اس آرٹ کا بہت اعلی استعمال یوکرین کی جنگ میں دیکھا جا رہا ہے۔
اور وہ یوں کہ روسی فوج جب بھی کسی بڑے قصبے یا شہر تک پہنچتی ہے تو اس بات کی جلدی بالکل نہیں دکھاتی کہ بس جلدی سے قصبہ یا شہر قبضہ کرلیا جائے۔ وہ اسے تین جانب سے محاصرے میں لیتے ہیں اور سپلائی لائن والی جانب کھلی چھوڑ دیتے ہیں۔ یوکرین نئی کمک بھیجتا جاتا ہے اور روسی انہیں مارتے جاتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے اس میں فوجی ساز و سامان کا بڑا نقصان بھی شامل ہوتا ہے، مگر اصل ہدف فوج کا خاتمہ ہوتا ہے۔ روس نے اب تک یہ حکمت عملی بخموت، عبدیئفکہ اور کرسک میں بڑے پیمانے پر دکھائی ہے اور پوری کامیابی سے دکھائی ہے۔ یہاں یہ نکتہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ حکمت عملی ایسے دشمن کے خلاف ہی آزمائی جاسکتی ہے جو علاقہ چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو۔ جنگ میں جب بھی کمانڈر یہ دیکھے گا کہ اس کا حریف پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں تو وہ پیش قدمی روک کر وار آف اٹریشن کی جانب ہی جائے گا اور حریف کا پسپا نہ ہونا اس کے لئے نہایت تباہ کن بنا دے گا۔
غزہ کے متولی یہ بات بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ اسرائیل جب یہاں گھسے گا تو واپسی اختیار کرنے سے گریز کرے گا، چنانچہ انہوں نے پہلے ہی دن سے اس کے خلاف وار آف اٹریشن کی حکمت عملی بنا رکھی تھی۔ اہل غزہ گوریلا وارفیئر ہی لڑ رہے ہیں، مگر اس گوریلا وارفیئر کو وار اٹریشن بنانے کا موقع انہیں خود اسرائیل نے فراہم کیا ہے۔ اگر آپ غور کیجئے تو عراق اور افغانستان میں گوریلا جنگ لڑی گئی مگر وہ وار آف اٹریشن نہ تھی، کیونکہ وہاں کھلے میں موجود حریف فورا پسپا ہوجاتا اور فوجی اڈوں میں پناہ لے لیتا۔
غزہ کے متولی کی اس حکمت عملی کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی ہوجاتا ہے کہ اس کی فورس میں اسنائپرز کے کئی گروپ نہایت منظم انداز میں سرگرم ہیں۔ اگر آپ افغانستان یا عراق کی جنگوں کا جائزہ لیں تو وہاں اسنائپر نہ ہونے کے برابر تھے۔ اب یہاں ایک اور اہم چیز سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جنگوں کی نسبت سے عام لوگوں میں ایک بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ دشمن کا اصل نقصان “ہلاک” فوجی ہوتا ہے۔ سو یہ بس یہ دیکھتے ہیں کہ مرے کتنے؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔ دشمن کا بڑا نقصان وہ شدید زخمی فوجی ہے جو معذور ہونے کے سبب اب دوبارہ کسی میدان جنگ میں نظر نہیں آئے گا بلکہ یہ علاج معالجے، مصنوعی اعضاء اور نفسیاتی ٹریٹمنٹ وغیرہ کی مد میں اپنی فوج پر تاحیات بوجھ بھی بنے گا اور معاشرے میں جنگ کی ہلاکت خیزی کا پوسٹر بن کر بھی گشت کرے گا۔ جب کوئی اجنبی پوچھے گا کہ بازو کہاں گئے؟ تو بتانا پڑے گا کہ غزہ کی “پکنک” پر گیا تھا۔
چنانچہ غزہ کی جنگ کی انتہائی اہم خبر یہ ہے کہ وار آف اٹریشن کے نتیجے میں اسرائیل کے مستقل معذور ہوجانے والے فوجیوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ چھوٹے سے اسرائیل میں غزہ کے یہ 70 ہزار پوسٹر کوئی معمولی تعداد نہیں، مگر بات فقط یہیں تک نہیں۔ یہ 70 ہزار مستقل معذور فوجی ایسی فوج کے ہیں جو مشتمل ہی “ریزرو” پر ہے۔ خود کو ہمیشہ کے لئے محفوظ سمجھنے کی خوش فہمی نے اسرائیل سے یہ مہلک غلطی کروا رکھی تھی کہ اس کی فوج کا بڑا حصہ ریزرو پر مشتمل ہے۔ ریزرو ایسے فوجی ہوتے ہیں جنہیں عسکری تربیت دے کر اس ہدایت کے ساتھ گھر بھیج دیا جاتا ہے کہ جب بھی مادر وطن کو ضرورت پڑے گی آپ کو کال کرلیا جائے گا۔ سال میں ایک بار انہیں محدود سے تربیتی عمل کے لئے طلب کیا جاتا ہے۔ باقی یہ آزاد ہوتے ہیں، اپنی کوئی بھی پرائیویٹ نوکری یا بزنس وغیرہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ڈیفنس بجٹ پر بوجھ کم رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
یہ ریزرو فوجی جب اپنے ملک کی مستقل فوج کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں تو کام چل جاتا ہے لیکن اگر اکثریت ہی ریزرو پر مشتمل ہو تو اس ملک کا پھر خدا ہی حافظ جس کا دفاع ان جزو وقتی فوجیوں کے ہاتھ میں ہو۔ یہیں سے آپ یہ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ اسرائیلی فوج وار آف اٹریشن میں کس قدر آسان ٹارگٹ ہے۔ غزہ میں اسرائیل کو صرف سپاہ کا ہی نہیں بلکہ سامان حرب کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے اور ان کی حالت اتنی خراب ہوچکی کہ اب خود اسرائیلی فوج کے سابق جرنیل یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر غزہ کی یہ جنگ اسی طرح جاری رہتی ہے تو اسرائیل زیادہ سے زیادہ ایک سال مزید چل سکتا ہے۔ سال بعد اسرائیل کا وجود ہی داؤ پر لگ چکا ہوگا، کیونکہ اسے برقرار رکھنے کے لئے ہمارے پاس فوج نہ ہوگی اور اگر اسرائیل اپنے دم پر لبنان والا محاذ بھی کھول دیتا ہے تو تب یہ مدت مزید کم ہوجائے گی۔
اگر آپ کو یاد ہو تو غزہ کی جنگ کے آغاز پر اسرائیل سے زیادہ امریکی صدر جوبائیڈن ڈینگیں مارتے رہے تھے۔ وہ جنگ بندی یا سیز فائر کی راہ میں بھی رکاوٹ بنے رہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سیز فائر کے لئے آنے والی قراردادوں کو بھی امریکہ کی جانب سے ویٹو کیا جاتا رہا لیکن جب چھ ماہ بعد دیکھا کہ اسرائیل کی فوج کا تو کچومر نکل رہا ہے تو خود بائیڈن ہی سیز فائر کے سب سے بڑے وکیل بن گئے۔ امریکی جانتے ہیں کہ مزید بربادی سے بچنے کی واحد سبیل یہی ہے کہ سیز فائر کرکے اس فوج کو غزہ سے دور کیا جائے ورنہ اس کا کچھ نہ بچے گا۔ اب ہر گزرتا دن اسرائیل کے مستقبل کو ہی مزید خطرے میں ڈالے گا۔
لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور اس کے انتہاپسند اتحادیوں کے لئے یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتارنا اپنی اپنی وجوہات کے تحت مشکل تر ہوچکا۔ نیتن یاہو کے سر پر تاحیات قید کی تلوار لٹک رہی ہے جبکہ انتہاپسند اتحادیوں کے لئے ان کا سیاسی مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ کیونکہ جب جنگ رکے گی تو اسرائیل کے شہری اس جمع و تفریق کی جانب جائیں گے کہ کیا پایا اور کیا کھویا؟ ظاہر ہے اس جمع و تفریق کا بیلنس یہی نکلنا ہے کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ بات صرف یہیں تک نہ رہے گی، بلکہ ہر صہیونی کے لئے ایک روح فرسا سوال یہ بھی کھڑا ہوجائے گا کہ کیا اسرائیل برقرار رہ پائے گا؟ جب اس کے وجود کے خلاف ہی 75 سال سے مسلح تحریک موجود ہے اور اس تحریک کے ہاتھوں یہ اتنی بڑی ہزیمت کا شکار ہوگیا ہے تو یہ کیونکر بچ پائے گا؟ اب تو وہ دن آسکتا ہے جب غزہ کے متولی صرف حفاظتی باڑھ روندنے تک نہ رہیں بلکہ وہ اگلی جنگ لڑیں ہی اسرائیلی حدود میں، چنانچہ یہی وہ صورتحال ہے جس کا تدارک موجودہ اسرائیلی حکومت کو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ کسی طرح جنگ کو ایسی ایران اسرائیل جنگ میں بدل دیا جائے جس میں لڑیں تو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اور فتح کی صورت کریڈٹ اسرائیل حاصل کرلے، مگر یہ ممکنہ جنگ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ کیسے؟ اس پر زیر نظر کالم کے اگلے حصے میں بات کرتے ہیں۔ (جاری ہے)